|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2016

گزشتہ67سالوں میں پاکستان ریلوے کی کارکردگی بلوچستان میں مایوس کن رہی، اتنے بڑے اور طویل عرصے میں سفری سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا البتہ تباہی بمباری زیادہ ہوئی۔ ان سالوں میں ریلوے لائن کی نہ مرمت ہوئی اور نہ ہی ریلوے کے املاک اور اثاثوں کو تحفظ دیا گیا بلکہ پورے ریلوے نظام کو بلوچستان بھر میں نظر انداز کیا گیا۔ بلوچستان دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے پاکستان، اس کے باقی تین صوبے صرف اور صرف بلوچستان کے راستے ہی بین الاقوامی تجارت کر سکتے ہیں کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن ملک کا اہم ترین خطہ ہے جو پاکستان کے ریلوے نظام کو دنیا کے دیگر ممالک سے ملاتاہے آج دن تک اس پر توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ ملک کے ایک نظر انداز صوبے کا حصہ ہے ۔ ایرانیوں نے پہلی فرصت میں ایرانی بلوچستان کو ریل کے بین الاقوامی نظام سے منسلک کردیا اور زاہدان ‘ کرمان کی 500کلو میٹر طویل ریلوے لائن تیار کی اور اب ایرانی بلوچستان خصوصاً زاہدان سے دنیا بھر کے ساتھ تجارت ریل کے ذریعے ہوسکتی ہے ۔ یہاں بین لااقوامی معیار کا ریلوے نظام قائم کیا گیا اور سفری سہولیات بھی بہتر کی گئیں ۔ زاہدان سے ایران کے کسی بھی حصے میں ریل کے ذریعے سفر کیا جا سکتا ہے جو نہایت ہی آرام دہ اور خوشگوار سفر ہے ۔ اس کے برعکس صرف تیس کلو میٹر ریلوے لائن تفتان سے سندھک کے سونے اور تانبے کے کان سے ملا دیا گیا تاکہ اس اہم صنعتی اور معدنیاتی منصوبہ کو ریل کی سہولیات فراہم ہوں ۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی ٹرینیں بند کردی گئیں صرف ایک نئی ٹرین جعفر ایکسپریس کا اضافہ ہو ا۔ اس پر سیکورٹی کے اخراجات کو مسافروں کے کرایوں میں شامل کیا گیا ہے جو ایک قابل مذمت بات ہے ملک کی دفاعی ضروریات پوری ہورہی ہیں اور جعفر ایکسپریس کے مسافروں سے سیکورٹی کے اخراجات وصول کرنا اور بغیر اعلان کے وصول کرنا عوام کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے اس کو فوری طورپر واپس لیاجائے ۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کوئٹہ سے کراچی جانے والی بولان میل کو 52کروڑ روپے پر نیلام کردیا گیا ہے ، اب ٹھیکے دار بولان میل چلائے گا کیا وہ زیادہ کرایہ وصول نہیں کرے گا یا زیادہ بہتر سہولیات فراہم کرے گا۔ یہ سوالیہ نشان ہے ہم پاکستان ریلوے کی بحالی کے بعد زیادہ بہتر سروس کی توقع کررہے تھے تمام سہولیات لاہور ‘ کراچی مین لائن پر فراہم کی گئیں ہیں بلوچستان کی پرانے ٹرینوں کو بحال نہیں کیا گیا یہاں تک ریلوے ڈرائیوروں کو مجبور کیا گیا کہ پرانے اور ناکارہ انجن استعمال کریں جس کی وجہ سے بڑا حادثہ پیش آیا، وجہ پرانی انجن تھی اس کے بریک فیل ہوگئے تھے اور اس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اس پر ریلوے ڈرائیوروں نے ہڑتال کی اور احتجاج بھی کیا کہ ان کے جانوں کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ پاکستان ریلوے کے تمام انجن صوبہ بھر میں نہ صرف پرانے ہیں بلکہ ناکارہ ہیں اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ مجموعی طورپر بلوچستان کے اکثر سٹیشنوں پر ٹرین بند کردیا گیا ہے یا اس پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان میں ریلوے نظام کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ توجہ اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کی دیرینہ خواہش بلکہ مطالبہ ہے کہ کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے اسپیزنڈ سے کچلاک تک شٹل ٹرین چلائی جائے تاکہ سڑکوں پر بڑھتا ہوا ہجوم کو کم سے کم کیاجاسکے اور مسافروں کو زیادہ محفوظ اور سستی سفری سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حال ہی میں پاکستان ریلوے نے سینکڑوں کی تعداد میں انجن خریدنے کا ارادہ کیا ہوا ہے ان میں سے ایک آدھ انجن بلوچستان کو دیاجائے تاکہ یہاں پر بھی شٹل ٹرین چلائی جائے ۔