|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2016

کوئٹہ: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے سانحہ کوئٹہ وزارت داخلہ اور ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے بغیر ایسے سانحات کا سدباب ممکن نہیں۔ وزیرداخلہ کا غیر سنجیدہ اور سخت رویے سے وزیراعظم کے کردار پر شکوک و شبہات اور سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کو آستین کے سانپ سے پہنچنے والے نقصانات کا احساس ہی نہیں۔ وزیرداخلہ کوئٹہ آنے سے ڈر رہے ہیں۔ ان کے نہ آنے کا مطلب دال میں کچھ کالا ہے۔ جبکہ سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نیکٹا کی فعالی، صوبوں کی سیکورٹی اور ایجنسیوں کے درمیان روابط مؤثر بنانے کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ یہ بات انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں بلوچستان کے وکلا ء سے سانحہ کوئٹہ پر تعزیت کا اظہار کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی سربراہی میں کوئٹہ پہنچا۔ وفد میں ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کے علاوہ ڈاکٹر نفیسہ شاہ، روبینہ خالد،سندھ حکومت کے وزراء ناصر شاہ اور ممتاز جھکرانی شامل تھے ۔وفد کے ارکان نے سی ایم ایچ جاکر سول اسپتال بم دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی اور اس کے بعد ہائی کورٹ پہنچ کر ججز اور وکلاء سے ملاقاتیں کیں اور ان سے سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا۔اس موقع پر دعائے مغفرت بھی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے وکلاء کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس موقع پر وزیر ترقی و منصوبہ بندی بلوچستان حامد خان اچکزئی، رکن صوبائی اسمبلی طاہر محمود خان، سابق وفاقی وزیر چنگیز جمالی ، پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر صادق عمرانی اورسابق رکن صوبائی اسمبلی جعفر جارج بھی موجود تھے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ یقیناًہماری سیکورٹی ایجنسیوں کی ناکامی نظر آتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اس پر بات ہوئی ۔پارلیمنٹرین صرف بحث کرسکتے ہیں اور تجاوز دے سکتے ہیں۔ ہم نے کل بھی قومی اسمبلی میں کہا کہ نیشنل ایکشن پلان بالکل ناکام ہوگیا ہے۔ حکومت اور خاص طور پر وزارت داخلہ اگر اس وقت صحیح معنوں میں پورے جذبے کے ساتھ اس پلان پر کام کرتی تو یہ نہیں ہوتا۔ نیشنل ایکشن پلان ہم سب نے ملکر بنایا ہے اور تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں۔ یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ایکشن پلان پر مکمل عمل ہوتا تو ایسے سانحات آئندہ رونمانہیں ہوں گے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے حکومت کے سامنے یہ تمام باتیں رکھیں لیکن بد قسمتی سے اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ یہ حکومت اور وزارت داخلہ کی مکمل ناکامی ہے۔ وزارت داخلہ کو چاہیے کہ وہ ان واقعات کے بعد سوچے کہ ان کا سدباب کیسے ہوسکتاہ ے۔ آیا اس ناکامی پر وزارت داخلہ شرمسار ہے بھی یا نہیں اور اس شرمساری کا وہ کس طرح ازالہ کرسکتی ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے سانحہ کوئٹہ کے بعدحکومت کو تعاون کا یقین دلایا ہے اور ہم نے وزیراعظم کی تقریر کی تائید و حمایت کی ، انہوں نے بہتر نکات اٹھائے مگر متعلقہ وزارت جو وزارت داخلہ ہے نے تنازع کھڑا کیا ۔ وزیر داخلہ کی تقریر سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر ہوئی جبکہ اپوزیشن کی تقاریر کو نہیں دکھایا گیا۔ ہمارا مؤقف عوام تک نہیں آنے دیا گیا ۔ہم اس سانحے پر حکومت کے ساتھ ہے کیونکہ سیاست ہوتی رہتی ے۔ جب تک انسان زندہ ہے وہ سیاست کرتے رہیں گے مگر انسانی جانوں کے ضیاع کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ آج یہ حکومت ہے کل کوئی اور آئے گی اورحکومتیں آتی رہیں گی پاکستان ہمارا ملک ہے اللہ کریں قائم و دائم رہیں ۔ مگر ان سارے معاملات پر حکومت کا جو رویہ ہے وہ درست نہیں۔ حکومت کمزور ہوجائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مگر ہم خوفزدہ ہے کہ اسٹیٹ کمزور نہ ہو کیونکہ جب اسٹیٹ کمزور ہو تو ادارے کمزور ہوجاتے ہیں اور ادارے کمزور ہو تو اس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے۔ حکومت کو اس پر سوچنا چاہیے اور انا پرستی سے ہٹنا چاہیے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم چھ چھ گھنٹے طویل اجلاس کررہے ہیں یہ تو بندر والی مثال ہوگئی۔ بندر کو شیر نے ایک دن کیلئے جنگل کا بادشاہ بنایا تو بکری بندر کے پاس شکایات لے کر آئی کہ بھیڑیا اس کا بچہ لے کر گیا۔ بندر نے ادھر ادھر چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔ جب بکری نے پوچھا کہ یہ کیا کررہے ہیں تو بندر نے کہا کہ آپ نہیں دیکھ رہی کہ میں کوشش کررہا ہوں۔ یہی مثال وزارت داخلہ کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم طویل اجلاس ہیں ہم بہت کچھ کررہے ہیں اور پھر بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا۔خورشید شاہ نے کہا کہ کوئٹہ سانحہ وزارت داخلہ کی اس لیے بھی ناکامی ہے کہ وزیر داخلہ نے اتنے بڑے معاملے پر پہلے روز کوئی بیان دیا اورنہ ٹی وی پر آئے۔ یہاں کے متاثرہ لوگوں کو ترجیح ہی نہیں دی ۔ وزیراعظم آیا ، وزیراعلیٰ آئے سب آئے مگر انہوں نے یہاں آنے کی زحمت تک نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں یہ ہوتا رہے اور لوگ مرتے رہیں ۔ اس سے ان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتے ہیں۔ہم اگر کوئٹہ آئے ہیں اور یہاں دعا کی ہے تو کیا ہم ہماری دعاؤں سے شہید زندہ ہوجائیں گے ۔یہاں آنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ متاثرین کے دکھ میں شریک ہوجں۔ وزیر داخلہ کوئٹہ نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ وہ خوفزدہ ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ لوگ طعنے دیں گے اور نعرے لگائیں گے۔ ان کو آنا چاہیے اور لوگوں کے غم میں شریک ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کو سوچنا ہے کیونکہ اس کے تانے بانے ان تک جاتے ہیں۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں اور آج بھی کافی لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ وزیر داخلہ کا رویہ کیسا ہے۔ انہوں نے کل جو رویہ اختیار کیا ہے اس کے پیچھے کیا نواز شریف نہیں۔ یہ نواز شریف کے ساتھ ملی بھگت ہے۔وزیراعظم نے وزیر داخلہ سے کہا ہے کہ تم سخت بولو میں پیار سے مناتا رہون گا۔اس رویے سے وزیراعظم سے متعلق شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ۔ ہم نے پہلے بھی کئی دفعہ کہاہے کہ وزیراعظم کو آستین کے سانپ ڈس رہے ہیں جس کا انہیں احساس ہی نہیں۔ یہ زہر میاں صاحب کے جسم کے اندر پھیل رہا ہے اور کسی دن بہت بڑا نقصان ہوگا۔ ایک سوال پر پیپلز پارٹی رہنماء نے کہاکہ سندھ حکومت نے سانحہ کوئٹہ کے زخمیوں کے علاج و معالجے کیلئے اقدامات کئے ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے ۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سب جماعتوں نے ہم خیال ہوکر بنایا تھا۔ اس کے بیس نکات تھے جس پر عملدرآمد ہونا تھا۔ نیکٹا کو فعال ہونا تھااور بہت سے معاملات تھے ۔چھبیس مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان مربوط رابطہ قائم کرنا تھا ۔ ٹریننگ کیمپس کو ختم کرنا تھا ۔ تمام صوبوں اور ایجنسیوں کے درمیان رابطے قائم کرنے کی ذمہ داری کس وزارت کی تھی ۔ کس وزارت کی ذمہ داری تھی کہ تمام ایجنسیوں کی کارکردگی بہتر بنائے ۔ وزارت داخلہ اپنی یہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ تین دن قبل بھی کوئٹہ میں دھماکا ہوا اور آج پھر دھماکا ہوا۔ تمام ایجنسیوں کی نظریں اور توجہ کوئٹہ اور بلوچستان پر ہونی چاہیے اس کے باوجود مزیددھماکے ہورہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ۔ہم یہ بہت عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہورہا جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماء خورشید شاہ ، ڈاکٹرنفسیہ شاہ، سینیٹر روبینہ خالد اور سندھ کابینہ کے دو وزراء ناصر شاہ اور ممتاز جھکرانی صاحب کوئٹہ آئے ہیں ۔سندھ حکومت کی جانب سے بھی ہم تعاون کی مثال دیکھی ہے ۔ کوئٹہ دھماکے کے جو زخمی آغا خان اسپتال کراچی منتقل کئے جارہے ہیں ان کے تمام اخراجات کا ذمہ سندھ حکومت نے اپنے سر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ آنے کا مقصد اپنے ساتھی وکلاء سے مشاورت اور ان کے ساتھ سوگ میں شریک ہونا ہے۔ بلوچستان کے سینئر وکلاء علی احمد کرد، ہادی شکیل ، امان اللہ کنرانی ایاز ظہور اور دیگر وکلاء سے ہم ملے ہیں ۔ ہمارا مقصد متاثرین کی مدد کرنا ہے۔ ہم نے یہاں تجاویز دی ہے کہ ہم متاثرین کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ ہم نے زخمی اور معذ ور وکلاء کے علاج اور شہید وکلاء کے بچوں کی کفالت، تعلیم اور صحت کے لئے ایک ٹرسٹ بنانے کی بھی تجویز دی ہے۔ اس ٹرسٹ کو رجسٹرڈ کرکے اکاؤنٹ بنایا جائے ۔ حکومتیں بھی اس میں حصہ ڈالیں اور وکلاء بھی کوشش کرینگے کہ زیادہ سے زیادہ مالی مدد کریں تاکہ شہداء کے کم عمر یتیم بچون کی تعلیم کا بندوبست مستقل بنیادوں پر ہوسکے۔