کوئٹہ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد حکومت اور حکومتی اداروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ کارروائی بلوچستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک میں کارروائی ہوگی، دہشت گردوں کے سلیپر سیلSleeper Cellsتقریباً ہر جگہ موجود ہیں فاٹا کے علاقے سے نکلنے کے بعد ان کی زیادہ توجہ کا مرکز کراچی اور بلوچستان رہا ہے لوگوں کا اندازہ ہے کہ یہ سیل افغانوں کے علاقوں میں خصوصاً وہ افغان جو گزشتہ سالوں غیر قانونی طورپر او ر معاشی وجوہات کی بناء پر بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان آئے ہیں ۔ ان کو رقم کی ضرورت ہے جو دہشت گرد آسانی کے ساتھ فراہم کرتے ہیں اور ان کو استعمال میں لاتے ہیں یہی وہ بنیادی سہولت کار ہیں جو دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں ان کو پناہ دیتے ہیں اور ان کو تمام تر سہولیات فراہم کرتے ہیں آج تک یہ ثبوت نہیں ملا ہے کہ دہشت گردوں کی معاونت میں مقامی لوگ یا قبائل ملوث ہیں ۔ آج دن تک ان دہشتگردں کی سہولت کاروں میں افغان خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن ملو ث ہیں پہلے حکومت ان کے خلاف بھر پور کارروائی کرے اور بین الاقوامی دباؤ میں نہ آئے اور ان سب کو اپنے وطن واپس بھیج دے ۔اگر افغانستان کی حکومت ان کو واپس لینے کو تیار نہ ہو تو بین الاقوامی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کو مجبور کیاجائے کہ ان کے مہاجر کیمپ افغانستان کے اندر قائم کیے جائیں اور اقوام متحدہ ان تمام مہاجرین اور کیمپوں کے تمام اخراجات برداشت کرے۔ بہر حال افغان غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان سے نکالا جائے، اسی صورت میں ملک کے اندر امن وامان بحال ہوسکتا ہے۔ ضرب عضب کے بعد اکثر پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ پاکستان واپس آکر اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کریں اگر ان کے سہولت کار پاکستان میں موجود ہوں گے ان کو پناہ اور دوسری سہولیات فراہم کریں گے تو دہشت گردی کی کارروائیوں میں زیادہ تیزی آسکتی ہے جو ملک اور پاکستانی عوام کے لئے ایک خوفناک صورت حال ہو سکتی ہے ۔آج ہی اطلاع آئی ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار عملہ کے افرادکو یر غمال بنا لیا گیا ہے اور حکیم اللہ محسود کے گروپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اغواء کار ان کے قبضے میں ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ پاکستانی طالبان نے اپنے مراکز افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منتقل کردئیے ہیں گمان یہ ہے کہ انکو افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں کی بھی حمایت حاصل ہے، ظاہر ہے حکیم اللہ محسود کا گروپ اپنے مطالبات منوانے کے بعد ہی ان اغواء کاروں کو رہا کرے گا۔ملک کے اندر سلامتی کی صورت حال میں بہتری اس وقت آسکتی ہے جب حکومت یہ فیصلہ کرے کہ پہلے وہ ہر ایک غیر ملکی تارکین وطن خصوصاً افغانستان سے آئے ہوئے معاشی مہاجرین کو نکالے گا اور ان کے خلاف کارروائی کرے گا تاکہ دہشت گرد ان کے ٹھکانوں کو استعمال میں نہ لا سکیں ۔ کوئٹہ پولیس لائن پر دہشت گردانہ حملہ میں تیس سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے ان میں ڈی آئی جی رینک کے افسران بھی شامل تھے تفتیش سے یہ معلوم ہوا کہ دہشت گرد اور خودکش بمبار پہلے مسجد کے پیش امام کے گھر میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرا ہوا تھا اور موقع ملنے پر وہ نماز جنازہ میں شریک ہوا اور اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا دیاا ور اس دھماکے میں تیس افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا دہشت گردانہ کارروائیوں سے گہرا تعلق ہے سیکورٹی اداروں کو مدرسوں پر خصوصی نگاہ رکھنی چائیے پہلے تو اس بات کی تسلی کی جائے کہ مدرسوں کو ناجائز اور نا معلوم ذرائع سے فنڈ کی ترسیل نہ ہو ،اگر ہو تو اس کو بند کیاجائے اور ایسے تمام مدرسوں کو بھی فوراً بند کیاجائے جو خودکش بمبار اور جہاد کی تبلیغ کررہے ہیں مذہبی جماعتوں کی جہادی سیاست پر بھی پابندی لگائی جائے ۔
دہشت گردوں کے خلاف کارروائی
وقتِ اشاعت : August 12 – 2016