افغان مہاجرین کے ایک وفد نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے ملاقات کی اور یہ الزام لگایا کہ ان کو ہراساں کیا جارہا ہے تحریک انصاف کے سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی یا نہیں بلکہ انہوں نے اس کی مذمت کر ڈالی۔ اگر واقعی افغان مہاجرین کو ہراساں کیا جارہا ہے تو یہ غیرایک انسانی فعل ہے اور ذی شعور آدمی اس کی تعریف نہیں مذمت ہی کرے گا مگر افغان مہاجرین سے پورے ملک کے لوگوں کو شکایات ہیں پہلی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین اپنے کیمپوں میں رہیں ۔ ان کا کیمپوں سے باہر رہنا غیر قانونی ہے اور پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے ان افغان مہاجرین کے کیمپوں میں گھس کر ان کو ہراساں نہیں کیا وہ پورے ملک میں کاروبار کررہے ہیں مزدوری کررہے ہیں اور اس طرح سے پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں ظاہر ہے کہ حکومتی اہلکار یا کوئی ذمہ دار شہری افغان مہاجرین کی حرکات پر ان کو ضرور ٹوکے گا اور یہ پسند نہیں کرے گا کہ ملک کے عام فرد کی حیثیت سے وہ بھی کاروبار زندگی میں اس طرح حصہ لے جیسا کہ ایک پاکستانی کرتا ہے عمران خان کو یہ بات سمجھ لینی چائیے کہ پاکستان میں دو طرح کے افغان شہری ہیں ایک افغان مہاجرین ہیں جو با قاعدہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں انکے متعلق حکومت پاکستان نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ وہ 31دسمبر2016ء تک پاکستان چھوڑ دیں اور اپنے ملک چلے جائیں ورنہ ان کو بھی غیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جائے گا اور ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہوگی ۔ دوسرے افغان شہری غیر قانونی تارکین وطن ہیں یہ غیر قانونی طورپر پاکستان کی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں اگر افغان مہاجرین کی تعداد پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے تو غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 45لاکھ ہے ان میں بیس لاکھ صرف کراچی شہر میں رہتے ہیں یہ سندھ کے صوبائی چیف سیکرٹری کا اعلیٰ عدالت کے اندر بیان ہے کہ سندھ میں بیس لاکھ افغان غیر قانونی طورپر موجو دہیں ان سب کا پاکستان کے اندر رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے یہ سب کے سب غیر قانونی طورپر موجود ہیں ان کو گرفتار کرنا‘ ان کی جائیدادیں ضبط کرنا اور ملکی قوانین کے تحت سزا دینے کے بعد ان کو واپس اپنے ملک بھیجنا ریاست پاکستان اور اس کے اہلکاروں کی ذمہ داری ہے۔ رہی یہ بات کہ کوئی اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جاتا افغانستان میں ایک نمائندہ حکومت ہے جو اپنے عوام کی دشمن نہیں ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان مہاجرین کی زندگیوں کو حکومت وقت سے کوئی خطرہ نہیں ہے یہ صرف اور صرف معاشی وجوہات کی بناء پر پاکستان آئے ہیں یہاں آ کر وہ اپنے معاشی قسمت کوآزمانا چاہتے ہیں دنیا کا کوئی ملک معاشی مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہتا اس پر پھول پتیاں نچھاور نہیں کرتا ان کو فوری طورپر گرفتار کیا جاتا ہے اور اپنے ملک واپس روانہ کیاجاتا ہے۔ ایران کی مثال لے لیں ایران حکومت روزانہ سو کے لگ بھگ پنجابیوں کو گرفتار کر تی ہے کیونکہ وہ غیر قانونی طورپر اور سرکاری سیکورٹی اداروں کی مدد سے ایران میں داخل ہورہے ہیں ایران ان کو گرفتار کرکے مقامی انتظامیہ کے حوالے کرتی ہے مگر پنجابیوں کا یہ سیلاب رکتا نظر نہیں آتا اور حکومت اور اس کے ادارے بے شرمی کے ساتھ خاموش ہیں، اس مافیا کو ختم نہیں کرتے جو وسطی پنجاب سے شروع ہو کر ایران کے سرحد تک جاتی ہے یہ غیر قانونی تارکین وطن وسطی پنجاب سے سرکاری سرپرستی میں ایران کی سرحد پرپہنچا دئیے جاتے ہیں جہاں ان کو فوری طورپر گرفتار کر لیاجاتا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک بد نصیب پنجابی انسانی اسمگلر مافیا کو لاکھوں روپے رشوت دیتا ہے کہ اس کو ایران پہنچا یا جائے جب ایران یہ کارروائی کرتا ہے تو یہ قانونی ہے اور پاکستان، غیر قانونی افغان تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو عمران خان جیسا سیاسی رہنما بھی شور مچاتا ہے عمران خان سیاست چھوڑ دیں اور رفاعی ادارے چلائیں تو بہتر ہے ۔
افغان مہاجرین اور عمران خان
وقتِ اشاعت : August 13 – 2016