|

وقتِ اشاعت :   August 14 – 2016

قوم آج جشن آزادی پورے زور وشور سے منا رہی ہے اور اس بات کا دوبارہ عہد کررہی ہے کہ عزیز وطن کے چپے چپے کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے اس بار قوم کو شدید مسائل کا سامنا ہے ان میں سیکورٹی کی صورت حال کو اولیت حاصل ہے ۔سیکورٹی اداروں اور فوجی سربراہوں نے صاف صاف طورپر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کردی ہے خصوصاً کوئٹہ کے دل خراش واقعہ کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ کوئٹہ میں دہشت گردانہ کارروائی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ۔عوام الناس کو بھی یہ شبہہ ہے کہ کسی طاقتور بیرونی سیکورٹی کا ادارے کا یہ کام ہے کسی عام دہشت گرد کے لئے اس طرح کی منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں ہے۔ عوام الناس کا شک دو پاکستان مخالف سیکورٹی اداروں ‘ ایک افغانستان کی این ڈی ایس اور دوسری بھارت کی راہ کے طرف ہے ’ البتہ سیکورٹی اداروں کو یہ مکمل یقین ہے کہ بھارتی ’’را‘‘ اس میں ملوث نظر ہے۔ بعض مبصرین اس بات کی زبردست طریقے سے حمایت کررہے ہیں کہ بھارت کشمیر کی صورت حال سے زیادہ پریشان نظر آرہا ہے اور کشمیر پر سے توجہ ہٹانے کے لئے اس نے کوئٹہ میں یہ دہشت گردانہ حملہ کیا ہے بھارت کشمیر کے معاملات پر پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتا ہے حالانکہ کشمیریوں کا یہ انقلاب مقامی طور پر امڈ کر آیا ہے اور اس نے پورے مقبوضہ کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، مکمل 35دن سے کرفیو کا نفاذ جاری ہے اوراس کے باوجود ہڑتالوں، جلسہ جلوس اور احتجاج میں کسی قسم کی کمی کا کوئی رحجان نظر نہیں آرہا۔ اتنی بڑی تعداد میں لاکھوں افراد سیکورٹی ادارے کے مراعات یافتہ نہیں ہوسکتے کہ ان کے کہنے پر اتنی بڑی اور کامیاب تحریک چلائیں یہ مقامی کشمیریوں کا انقلاب ہے جو بھارت سے مکمل آزادی کا خواہاں ہے پاکستان کی حکومت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتا ہے بھارت میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا بلکہ بھارت پر یہ زور دے رہا ہے کہ وہ وعدوں کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان باہمی مذاکرات شروع کرے اور کشمیر کا کوئی قابل قبول حل کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالے ۔ بلکہ اس سے بیشتر یہ بھارت تھا جس نے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا تھا سلامتی کونسل میں کشمیر پر دو قراردادیں منظور کی گئیں تھیں جس میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کرانا تھا ۔ البتہ بعض واقعات کے بعد کشمیر کے مسئلے کو بھارت نے دو طرفہ مسئلہ قرار دے دیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشمیر کا کوئی منصفانہ حل تلاش کریں گے ۔آج کل بھارت اس وعدے سے بھی پھر گیا ہے اور طاقت کے گھمنڈ میں یہ کہہ رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے بھارت کا حصہ ہے یہ متنازعہ علاقہ نہیں ہے یا یہ کہ تقسیم ہند کے فارمولے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ان باتوں کے علاوہ پاکستان کو دوسرے مسائل درپیش ہیں ان میں ایک ڈیورنڈ لائن کا ہے جو افغانستان نے اٹھایا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر حکومت کو دہشت گردی کا سامنا بھی ہے طالبان اور ان کے گروپ آئے دن حملے کرتے رہتے ہیں بلوچستان میں امن عامہ کا مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ بلوچ تنازعہ کا کوئی حل فی الحال نظر نہیں آرہا بلکہ حکومت توبلوچ تنازعہ کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی لیکن اکثر بیانات میں بلوچ کالعدم تنظیموں کا آئے دن تذکرہ ہوتا رہتا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے ملک کے اندر معاشی بحران نے شدت اختیار کی ہے خوردو نوش کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور غریب عوام کی پہنچ سے بہت دور چلی گئی ہیں۔ بے روزگاری عام ہے، لوڈشیڈنگ کمی کا نام نہیں لے رہی۔تادم تحریر،گزشتہ رات سے کوئٹہ میں بجلی آٹھ گھنٹوں سے غائب ہے۔ پاکستان کی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی واقعہ ہورہی ہے برآمدات میں کمی آرہی ہے ملک بھر میں اسٹریٹ کرائم میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ یہ سب مسائل ہیں جن کا عوام الناس سامنا کررہے ہیں اور حکمران صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دے رہے ہیں انہیں اپنے ذاتی جائیداد ‘ اکاؤنٹس‘ ملوں اور کاروبار کے فروغ میں دل چسپی ہے۔ بہر حال عوام یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے تمام مسائل ایک دن ضرور حل ہوں گے اس کے لئے عوام حکمرانوں کو ضرور مجبور کریں گے ۔