مسلح افواج نے سرحدی علاقے میں فوجی کارروائی کے دوران 14دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں کو تباہ کردیا گیا ۔ یہ کارروائی خیبر ایجنسی کے علاقے راج گال میں ہوئی جہاں پر دہشت گردوں پر حملے کیے گئے اور ان کے ٹھکانے تباہ کیے گئے ان تمام علاقوں میں فضاء سے بمباری کی گئی۔ اس کا مقصد دہشت گردوں کی پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میںآمد و رفت کو مکمل طورپر روکنا ہے تاکہ دہشت گردوں کے لئے پورے خیبر ایجنسی یا وادی تیرہ میں کوئی محفوظ ٹھکانہ سلامت نہ رہے ۔ مشکل گزار پہاڑی علاقوں میں مزید فوج تعینات کی گئی ہے تاکہ آمد و رفت کے تمام راستے بند کیے جائیں اور دہشت گرد کارروائی کے دوران افغانستان فرار نہ ہو سکیں ۔ کیونکہ اس علاقے سے دہشت گردآ کر ہمیشہ پشاور اور اس کے گردونواح پر حملے کرتے تھے اکثر پشاور کے علاقے میں یہ عناصر خیبر ایجنسی سے ہی آتے تھے جو بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتوں کا باعث بنتے رہے ہیں ۔ اس لئے خیبر ایجنسی کو محفوظ بنانا ضروری ہوگیا تھا کہ دہشت گرد شہری علاقوں میں آ کر حملہ آور نہ ہوں سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کو زیادہ مضبوط بنانا ہے تاکہ وہاں پر دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ باقی نہ رہے اور نہ ہی اس سے پشاور اور شہری علاقوں کو خطرات لاحق ہوں ۔اس بات کے اب نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ زیادہ دہشت گرد اور ان کے رہنماء اور کمانڈر پاکستان سے فرار ہوچکے ہیں اور ان کی اکثریت نے افغانستان کے اندر پناہ لے رکھی ہے افغان حکومت اور افغان سیکورٹی اداروں کا ان کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ کابل کے حکمران ان دہشت گردوں کی افغان سرزمین پر موجودگی کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں اورافغان حکومت اور افغان سیکورٹی افواج کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ۔ لہذا یہ پاکستانی افواج پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائی کرتے رہیں اور ان کو سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔ اس کے بعد ہی ملک میں دائمی امن قائم ہو سکتاہے یہ بات بھی اب ثابت ہوگئی ہے کہ افغانستان نے جان بوجھ کر اپنی سرحدیں بند نہیں کیں جب حکومت پاکستان نے ضرب عضب فوجی کارروائی کا آغاز کیا تو دہشت گردوں نے افغانستان بھاگ کر پناہ حاصل کی اور آج دن تک وہیں ہیں ان کو موجودہ حالات میں پاکستان آنے کی ہمت نہیں ہے۔ طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان آ کر صرف اور صرف سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنائیں۔ کوئٹہ میں وکلاء پر دہشت گردانہ حملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے ابھی تک اس کی تحقیقات ہورہی ہیں ، کوئی ثبوت نہیں ملا ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ خودکش حملہ آور کا تعلق پشین سے نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ خودکش بمبار نہ ہو کوئی اور ہو تاہم یہ سیکورٹی ادارے ہی بتا سکیں گے اور اس کا کوئی واضح اعلان کرسکیں گے تاہم دہشت گردی کے واقعات کو اس وقت تک روکنا ممکن نہیں تو مشکل ضرورہے جب تک غیر قانونی تارکین وطن لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کے ہر خطے اور شہر میں موجود ہیں اتنی بڑی کرائے کے لوگوں کی موجودگی میں امن قائم رکھنا آسان کام نہ ہو گا اس کام کوآسان بنانے کے لئے ضروری ہے پہلے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو خصوصاً جن کا تعلق افغانستان سے ہے ملک سے نکالا جائے بلکہ جلد سے جلد نکالا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کا نقصان کم سے کم ہو ۔ اس لئے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ تمام غیر قانونی تارکین وطن افغانیوں کے خلاف کارروائی کریں اور ان سب کو الگ کیمپوں میں رکھیں تاکہ ان کو واپس افغانستان بھیجنے میں آسانی ہو ۔