|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2016

بلوچستان میں شعبہ صحت کا اسی فیصد بجٹ کوئٹہ اور اس کے سرکاری اسپتالوں پر خرچ ہوتا ہے باقی بیس فیصد پورے بلوچستان پر خرچ ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں اسی وجہ سے لوگ بڑے شہروں اور نجی اسپتالوں کا رخ کررہے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ٹھیک کہتے ہیں کہ عوام الناس کا سرکاری اسپتالوں پر سے اعتماد بالکل ختم ہوگیا ہے ۔ نجی شعبہ پر مافیا کا قبضہ ہے اور وہ کسی حال میں سرکاری اسپتالوں میں کام نہیں ہونے دیتے یہاں تک کہ پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا ٹراما سینٹر کوئٹہ کو آج پانچ سال گزرنے کے بعد بھی فعال نہیں ہونے دیا ۔ اس کا وزیراعلیٰ نے سخت نوٹس لیا ہے اور بھرے اجلاس میں یہ احکامات جاری کیے ہیں کہ ہفتوں میں ٹراما سینٹر کو فعال بنایا جائے اور 138پوسٹوں پر تعیناتی کی جائے۔ ہمہ وقتی سرجن اور فزیشن اسٹاف فوری طورپر بھرتی کی جائے اور 24گھنٹے اس ٹراما سینٹر کو عوام الناس کی خدمت کے لئے کھلا رکھا جائے ۔ ڈاکٹر مافیا اور نجی اسپتال مافیاکو اس کے خلاف سازش کرنے سے نہ صرف روکا جائے بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، ان کی لوٹ مار کو بند کیاجائے یہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ جب سرکاری اسپتال کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور لوگوں کاصحیح اور مناسب وقت پر علاج کریں۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر فوری پابندی لگائی جائے اور ان کو پابند کیاجائے کہ وقت ضرورت طلبی پر وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ڈاکٹروں کی لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ پرائیویٹ کلینک اور اسپتال میں ایک ڈاکٹر ایک دن میں سینکڑوں مریضوں کو دیکھتا ہے یعنی ہر مریض کے حصے میں صرف ایک آدھ منٹ آتا ہے ۔ دوسری منٹ پر ڈاکٹر مریض کو کلینک سے باہر نکلنے کا حکم دے دیتا ہے ۔ یہ مسیحا کا کردار نہیں ہوسکتا یہ کردار صرف قصاب کا ہوسکتا ہے کہ مریض جو اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے اس کی زندگی بچانے کے لئے نہیں ، فیس لینے کے بعد بھی ڈاکٹر کے پاس صرف ایک آدھ منٹ ہی ہے زیادہ وقت دینے پر اس کی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ جلد ی میں ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرسکے ۔دوسرا مسئلہ ٹراما سنٹر کا ہے جب اس کی تعمیر کی بات تھی تو متعلقہ حکام نے زبردست جوش و خروش دکھایا کہ سرکاری خزانے سے پچاس کروڑ روپے نکالے جائیں گے اور ان میں کس کا کتنا حصہ ہوگا چونکہ حکام صرف تعمیرات میں ہی دلچسپی لیتے ہیں وجہ اس میں کمیشن اور کک بیک ہے جو کروڑوں میں ہوتاہے جب تعمیرات مکمل ہوتی ہیں اور متعلقہ حکام اپنا کمیشن جائز اور ناجائز کھا لیتے ہیں تو اس منصوبے کو نظر انداز کردیتے ہیں ان کی بلا سے اس کے ساتھ جو کچھ ہوجائے، یہی حال ٹراما سینٹر کا ہے پانچ سال قبل ٹراما سینٹر مکمل ہوا مگر فعال نہ ہو سکا ۔ وجہ متعلقہ حکام خصوصاً متعلقہ وزیروں کو بھی دلچسپی نہیں تھی، فضول باتوں میں کون دلچسپی لیتا ہے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیاجاتا ہے ہر سیاستدان اور سرکاری اہلکار نے اپنا اپنا دفتر روزگار کھول رکھا ہے اور ان کا مقصد اپنے من پسند لوگوں، زیادہ تر رشتہ داروں اور سیاسی کارکنوں کو ملازمت یا ذرائع روزگار فراہم کرنا ہے۔ اس لئے سیاستدان خصوصاًوہ جوحکمرانی کررہے ہیں ان کو اداروں سے دلچسپی نہیں ہے کہ ٹراما سینٹر مکمل ہونے کے بعد لوگوں کی خدمت سرانجام دے رہا ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی سول اسپتال میں بد نظمی اور انار کی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے ڈاکٹر اور سرجن مافیا پورے دن ڈیوٹی نہیں دیتے صرف ایک آدھ گھنٹہ ڈیوٹی دینے کے بعد اپنی پرائیویٹ پریکٹس پر توجہ دیتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ لوگوں کی لاشوں پر زیادہ سے زیادہ دولت کمائیں۔ بڑے بڑے ڈاکٹر اور سرجن ایم ایس صاحب کا حکم نہیں مانتے اس لئے ان سب کو فارغ کردیا جائے تاکہ اسپتالوں میں ایک نظم و ضبط قائم ہوجائے ۔