کوئٹہ : بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے بلوچ سیاسی کارکنوں اور مغوی نوجوانوں کی حراستی قتل پر سول سوسائٹی کی تنظیموں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود میڈیا اور دیگر علمبردار اداروں کی خاموشی انتہائی مایوس کن ہے۔ بی ایچ آر او نے کہا کہ ایک مہینے کی مختصر مدت میں نصف درجن سے زائد مغویوں کے مسخ شدہ لاشوں سمیت ڈیرہ بگٹی میں ایک کاروائی کے دوران 20کے قریب لوگوں کی ہلاکتوں پر حکومتی خاموشی اور مقامی میڈیا و انسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی بلوچستا ن کے حوالے سے ان کی بے حسی ظاہر کرتی ہے۔ 13اگست کو کوئٹہ اور آج آواران سے تین لاپتہ نوجوانوں کے لاشوں کی برآمدگی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔دریائے سندھ سے درجنوں ناقابلِ شناخت لاشوں کی برآمدگی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لئے بھی اذیت کا باعث بن رہے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں ان کے پیاروں کی ہو سکتی ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں پاکستان کے دوسرے صوبوں خصوصاََ کراچی سے بھی برآمد ہو چکے ہیں اس لئے بلوچ لاپتہ افراد کے خاندانوں کی تشویش دریائے سندھ سے ملنے والی لاشوں کے حوالے سے جائز ہے۔ بی ایچ آر او نے کہا کہ لوگوں کا اس طرح سے بغیر کسی قانونی کاروائی کے قتل اور مسخ شدہ لاشوں کی ڈی این اے حاصل کیے بغیر انہیں دفنانا لاپتہ افراد کے لواحقین کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومتی زمہ دار اور انسانی حقوق کی مقامی تنظیمیں اس حساس مسئلے پر خاموشی کے بجائے اس کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ بی ایچ آر او کے ترجمان نے اپیل کی کہ لاپتہ افراد کا حراستی قتل بند کرکے قیدیوں کے ساتھ ریاستی قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔