|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2016

جب سے فصل بوائی کا کام شروع ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک غریب اور کمزور کاشتکار یہ احتجاج کررہے ہیں کہ نہری پانی کی زبردست طریقے سے چوری ہورہی ہے ۔ اس میں بااثر اور طاقتور لوگ یپش پیش ہیں،حکومت اور مقامی انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کی جرات نہیں کر سکی۔ یہ چوری کیر تھر کینال اور پٹ فیڈر میں وسیع پیمانے پر ہورہی ہے ۔گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری کے احکامات پر کمشنر نے پمپ اور ٹیوب ویل نہروں سے ہٹائے اور چوری صرف 24گھنٹوں کے لئے بند ہوگئی ۔ لیکن 24گھنٹے بعد پانی کی چوری دوبارہ آب و تاب کے ساتھ شروع ہوئی جو آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہی چونکہ چور انتہائی با اثر اور طاقتور لوگ ہیں لہذا کمانڈ ایریا سے ان کی زمین باہر ہوتے ہوئے بھی ہزاروں ایکڑ زمینوں کو نہری پانی موٹر پمپ کے ذریعے فراہم کرتے ہیں زمین کو چوری کے پانی سے سیراب کرتے ہیں اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آخری سرے پر آباد نہری نظام کے زمین داروں کو پانی نہیں ملتا چونکہ وہ نسبتاً زیادہ غریب ہیں اور انکی پہنچ اعلیٰ ترین افسران تک نہیں ہے بلکہ ان کی یہ استطاعت بھی نہیں ہے کہ چند لاکھ روپے آبپاشی کے افسران کو رشوت دے کر اپنی زمینوں کے لئے پانی حاصل کریں ۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ پانی تو نہری نظام کے آخری سرے تک پہنچتا ہی نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں پانی ہی نہیں ہے تو رشوت کس بات کی ۔چوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے زمینداروں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین زمین ہے جو کمانڈ ایریا کے اندر نہیں آتے اس لئے انکو نہری پانی ملنے کا حق نہیں ہے ۔ اس وجہ سے وہ پمپنگ کا نظام قائم کرکے نہروں کے اندر ٹیوب ویل اور دوسرے پمپ کے ذریعے کمانڈ ایریا سے باہر کی زمین کو آباد کرتے ہیں اور نہری نظام کے آخری سرے پر رہنے والے کاشتکاروں اور زمین داروں کو پانی نہیں پہنچ پاتا۔ بڑے بڑے زمین دار اپنے اثر ورسوخ ‘ رعب اور دبدبد کی بنیاد پر پانی چوری کرتے ہیں اور آبپاشی محکمہ کے چھوٹے افسران خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کیوں کہ ان معمولی افسروں کو یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ چوری کو روکیں زیادہ سے زیادہ وہ افسران بالا کو رپورٹ دے سکتے ہیں جو یقیناً ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے اس کے علاوہ درمیانہ درجے کے بعض زمینداربھی پانی کی چوری میں ملوث ہیں یہ افسران سے ملی بھگت کے ذریعے نہری پانی چوری کرتے ہیں افسران کو اس کے بدلے لاکھوں روپے رشوت دیتے ہیں زیادہ سختی ہوئی تو رشوت کے بھاؤ میں اچانک اضافہ ہوجاتا ہے اور رشوت ڈبل ہوجاتی ہے یعنی پہلے ایک لاکھ مل رہے تھے اب دولاکھ ‘ رشوت میں اضافہ کے ذمہ دار ہم اخبار نویس ہیں ۔ ہم جب ان کی چوری خبریں چھاپتے ہیں تورشوت کے بھاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے چوری بند نہیں ہوتی ۔