کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے دسمبر2015تا اگست 2016 کے دوران نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہونے والی کاروائیوں کے سرکاری اعداد و شمار کو اپنے دعوؤں کی تصدیق قرار دیتے ہوئے کہا آٹھ ماہ کی مختصر مدت میں ہزاروں لوگوں کی گرفتاری و سینکڑوں کا قتل بلوچستان میں جاری ریاستی جارحانہ پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق اس دوران 2825فوجی کاروائیوں میں 13ہزار پانچ سو سے زائد افراد کو گرفتار ،336کو قتل جبکہ 54زخمی کئے گئے ہیں۔ بی ایس او آزاد بار ہا عالمی اداروں کو بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں اور لوگوں کی ماورائے قانون گرفتاریوں و قتل کے حوالے سے آگاہ کرتی رہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ لوگوں کو بغیر کسی مقدمات کے گرفتار کرنا اور عدالتی کاروائیوں کے بغیر لوگوں کی ہلاکت جنگی جرائم پر مبنی کاروائیاں ہیں، لیکن فورسز تنقید سے بچنے اور خود کو بری الزمہ ثابت کرنے کے لئے قتل کیے جانے والے نہتے لوگوں کو شدت پسند قرار دے رہے ہیں جو کہ جھوٹ پر مبنی دعوے ہیں۔ فورسز کے اہلکار گرفتار لوگوں کو اذیت گاہوں میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں براہ راست ملوث ہیں۔آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں 13ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن کے بارے میں ان کے خاندانوں کو بے خبر رکھا گیا ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت بننے والی ریاستی ظالمانہ قوانین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی جواز فراہم کررہے ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ فورسز انصاف کے عالمی اصولوں کو روند کر زیرحراست لوگوں سے تشدد کے زور پر اپنی مرضی کے بیانات لے رہے ہیں اور دیدہ دلیری کے ساتھ انہیں میڈیا میں شائع کررہے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے لیکن ان تمام تر ظالمانہ کاروائیوں و قوانین کا نوٹس لینے کے بجائے انسانی حقوق کے عالمی ادارے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو اس صورت حال کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بن رہی ہے۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا حکومت کی جانب سے مختصر مدت میں ہزاروں لوگوں کی گرفتاری کی تصدیق سے اس بات کا ثبوت ہے کہ پچھلے کئی دہائیوں سے جاری کاروائیوں کے دوران لاپتہ کیے جانے والے ہزاروں لوگ بھی فورسز کی تحویل میں ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی یہ اخلاقی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے ہزاروں افرادکی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں ۔