|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2016

ہر خاص و عام یہ باتیں روایتی طورپر کرتا ہے کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لیے بہت زیادہ مواقع دستیاب ہیں ہر سیاسی رہنماء لوگوں کو بے قوف بنانے کے لئے یہی باتیں کرتا سنائی دیتا ہے بلکہ اس کا ٹھیکہ سرکاری سیاستدانوں نے لے رکھا ہے اکثر وہ اخبارات میں یہ بیانات دیتے رہتے ہیں کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں۔ نواب اکبر بگٹی مرحوم جب وزیراعلیٰ تھے وہ لسبیلہ صنعت و تجارت کے عشائیہ میں تقریر کرتے ہوئے یہی بات عوامی زبان میں کہی تھی کہ تماری ’’ چمڑی اور دھمڑی ‘‘ دونوں بلوچستان میں محفوظ ہے ۔ اس بات کو تیس سال کا عرصہ گزر گیا ہم کو کہیں سرمایہ کاری آج تک نظر نہیں آتی ۔ البتہ جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے سب سے بڑے ہیرے اور موتی جناب شوکت عزیز وزیراعظم پاکستان کا یہ حکم نامہ آج تک یاد ہے کہ بلوچستان خصوصاً حب اور اس کے گردونواح میں وفاقی حکومت نے تمام رعایتیں واپس لے لیں ہیں۔اس کا نتیجہ فوری طورپر یہ نکلا کہ حب اور اس کے قرب و جوار میں تین سو فیکٹریاں بند ہوگئیں بلکہ وہ سب کے سب پنجاب منتقل ہوگئیں جہاں پر ان کو تمام سہولیات اور رعایتیں دی گئیں جو پہلے انہیں حب میں حاصل تھیں ۔ حکومت کے ایک حکم سے بلوچستان کی 300فیکٹریاں پنجاب منتقل ہوگئیں ۔کوئی افسر یا حاکم یہ نہیں بتا سکتا کہ بلوچستان کے کسی بھی حصہ میں سو روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے ۔ البتہ اسمگلنگ زور و شور سے جاری ہے جس کو جائز بنانے کیلئے اس کو ’’ غیر رسمی تجارت ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ پورے بلوچستان میں ’’رسمی تجارت ‘‘ یا قانونی تجارت کانام و نشان نہیں ہے اسمگلنگ کی سرپرستی خود ریاست اور ریاستی ادارے کررہے ہوتے ہیں ۔ کم سے کم یہ ریاست کے مفادات کی حفاظت نہیں کررہے کیونکہ ’’غیر رسمی تجارت ‘‘ یا اسمگلنگ میں حکومت کو کوئی ٹیکس وصول نہیں ہوتا حکومت کی کوئی آمدنی نہیں ہوتی اس لئے روزگار کے تمام ذرائع مکمل طورپر منجمد ہوجاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کوئی پاگل تاجر یا صنعت کا ربلوچستان آ کر سرمایہ کاری کرے گا جس کے ہوش و حواس سلامت ہیں وہ بلوچستان کا رخ نہیں کرے گا۔ حیرانگی کی بات ہے کہ حکومت بلوچستان نے سرمایہ کاری کے لئے ایک الگ شعبہ بنا دیا ہے ایک نا معلوم شخص کو لا کر اس کا سربراہ بنا دیا گیا ہے اس کو کوئی جانتا نہیں ہے پاکستان کی معیشت میں وہ نا معلوم شخص ہے اس کا کیا کردار ہوسکتا ہے وہ سرمایہ کار کو کس طرح ترغیب دے گا کہ وہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کرے ۔اگر مقصد اس سے کوئی کام لینا نہیں ہے اور اس کو تنخواہ دینی ہے تو اس پر ہم کو اعتراض نہیں کیونکہ وہ عوام الناس کو بے وقوف نہیں بناتے سرمایہ کاری کا تعلق ماحول سے اچھا اور دوستانہ ہوگا تب ان علاقوں اور ممالک میں سرمایہ کاری ہوگی ۔ گوادر اور چاہ بہار کی بندر گاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے گوادر میں جتنی سرمایہ کاری ہوگی وہ صرف چینی ہی کررہے ہیں کوئی دوسرا ایک شخص نظر نہیں آتا اس کے برعکس چاہ بہار کی بندر گاہ میں دنیاکے امیر ترین ممالک جاپان ‘ کوریا ‘ جرمنی ‘ اٹلی ‘ بھارت اور دوسرے ممالک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ایک اندازے کے مطابق چاہ بہار میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چل رہی ہے ان میں بندر گاہ کی توسیع کے علاوہ دو بڑے اسٹیل ملز جن کی مجموعی پیدا وار 36لاکھ ٹن سالانہ ہے، دنیا کی ایک بہت بڑی کھاد کی فیکٹری جس کو بھارت کی پانچ بڑی کمپنیاں مشترکہ طورپر تعمیر کررہی ہیں۔ سی پیک منصوبے میں گوادر کا حصہ صرف ساٹھ کروڑ ڈالر کی لاگت سے ایک فنی تربیتی مرکز اور دسرا 500بستروں پر مشتمل اسپتال شامل ہے باقی منصوبے سی پیک سے پہلے کے ہیں جن کا اعلان پرویزمشرف نے صدر کی حیثیت سے کیا تھا ان میں بجلی گھر اور ائیر پورٹ کی تعمیر شامل ہے ۔ اگر بلوچستان میں ریاست سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہے تو اس کے لئے بہترین ماحول کا بناناضروری ہے پہلے تو بلوچ تنازعہ کا کوئی پر امن حل تلاش کیاجائے ،دوسرے عوام الناس کو اعتماد میں لیا جائے کہ وہ ان تمام منصوبوں کے مالک اور محافظ ہیں اگر منصوبے ان کے فائدے میں ہوں گے تو ان کی حفاظت کے لئے کسی فوج کی ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ چاہ بہار میں ہے جہاں پر کوئی پولیس کا سپاہی ڈنڈا ہاتھ میں لیے نظر نہیں آتا ۔