|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2016

متحدہ کے بعض رہنماؤں نے الطاف حسین اور برطانیہ میں قائم تنظیم سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے اور اس کے رہنما ء ڈاکٹر فاروق ستار نے اعلان کیا ہے کہ اب متحدہ کے فیصلے پاکستان میں ہوں گے ۔ دوسرے الفاظ میں الطاف حسین فیصلے نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنا فیصلہ آئندہ متحدہ (پاکستان) کے سر تھوپے گا ۔ اگر یہ سچ اور حقیقت ہے تو متحدہ اور اس کی تیس سالہ سیاست میں بڑا انقلاب ہے لیکن تجزیہ کار اس کو وقتی فیصلہ سمجھتے ہیں بعض کا یہ خیال ہے کہ غداری کا مقدمہ قائم ہونے کے بعد پوری متحدہ اور اس کی پاکستان میں قیادت لپیٹ میں آجائے گی لہذا یہ مشترکہ مشورہ معلوم ہوتا ہے کہ متحدہ کو بہ حیثیت ایک سیاسی پارٹی موجودہ آئینی حملوں سے بچایا جائے اور سارا الزام فرد واحد پر تھوپ دیا جائے تاکہ اراکین سینٹ ‘ صوبائی اور قومی اسمبلی اپنی نشستیں بر قرر رکھیں اور ان کا ریاست پاکستان پر اثر ورسوخ ہمیشہ کے لئے بر قرار رہے ۔ یہ بات بہت ہی کم لوگ تسلیم کریں گے کہ الطاف حسین جیسا شخص اپنے اختیارات اپنے نوکر وں اور ملازموں کے حوالے کریں گے جن کو کبھی اہمیت نہیں دی بلکہ کارکنوں کے ہاتھوں ان رہنماؤں کو سر عام اور جلسہ کے دوران پٹوایا اور ان کو ان کی حیثیت بتا دی ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کارکن الطاف حسین کی بات نہ سنیں اور ڈاکٹر فاروق ستار اور اظہار الحسن کے احکامات مانیں۔ آج بھی کارکنوں میں الطاف حسین اپنی تمام تر کمزورویوں کے باوجود مقبول ترین شخص ہیں متحدہ کا کوئی لیڈر ان کا ہم پلہ نہیں ہے اور نہ ہی کارکنوں پر اتنا اثر ورسوخ رکھتا ہے ۔ یہ لا تعلقی کا اظہار ایک اور سیاسی ڈرامہ معلوم ہوتا ہے کہ متحدہ کو اس خطر ناک صورتحال سے کس طرح بچایاجائے شاید اسی لئے رینجرز یا حکام بالا نے راتوں رات ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رہا کردیا باقی لوگ قید میں ہیں شاید ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہارالحسن کو اس لئے رہا کیا گیا کہ وہ الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کریں ۔شاید حکومت وقت اور مقتدرہ کی یہ کوشش تھی کہ اس واقعہ کے بعد الطاف حسین کو مزید تنہا کیاجائے اور اس کے ساتھیوں کو ا ن سے الگ کیے جائیں یا اس کی لیڈر شپ کو کمزور تر کیاجائے ۔ بہر حال یہ بحران کا سامنا کرنے یا ان سے بچنے کی ترکیبیں ہیں یہ سیاست ہے دیکھنا یہ ہے کہ الطاف حسین فاروق ستار کو کس حد تک خودمختاری دیں گے۔ مقتدرہ اور حکومت کی یہ خواہش ضرور ہے کہ الطاف حسین کی لیڈر شپ کا خاتمہ کیاجائے اور ان کے بجائے زیادہ معقول مزاج فاروق ستار کو رہنما بنایا جائے ۔ جبکہ الطاف حسین اور ان کی لندن والی پارٹی وقتی طورپر کچھ اختیار فاروق ستار کودینے کو تیار ہوگی مگر وہ یہ کوشش ضرور کرے گی اقتدار کا اصلی سرچشمہ الطاف حسین رہیں فاروق ستار اور اظہار الحسن صرف پارلیمانی سیاست کریں اور اپنے اپنے رفیقوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کریں ۔ اگر یہ عمل یا ڈرامہ نہ ہوتا تو مقتدرہ اور حکومت کے یہ تیور صاف اور واضح تھے کہ متحدہ کے اہم ترین رہنماؤں کو گرفتار کیاجائے ، عدالت کے ذریعے متحدہ پر آئینی پابندی لگائی جائے، متحدہ کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے جس کے لئے تیار ی مکمل ہے ۔ متحدہ کے رہنماؤں نے یہ یقین کر لیا تھا کہ یہ سب کچھ ہونے والا ہے اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سارا ملبہ ایک بار پھر الطاف پر گرادیا جائے ۔ متحدہ کو بہ حیثیت ایک سیاسی پارٹی بچا لیا گیا، ڈاکٹر فاروق ستار سے یہ توقع نہیں کہ وہ مسلح ونگ کی بھی سربراہی کریں گے۔ یہ کام الطاف حسین اپنے کارندوں کے ذریعے کراتا رہے گا اور متحدہ ( پاکستان ) ان سے لا تعلق رہے گا۔ سزا یافتہ متحدہ کے کارکن پاک سرزمین پارٹی اور متحدہ کے درمیان تقسیم رہیں گے اور ان کو سزائیں نہیں ملیں گی ۔