|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2016

کوئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 30 اگست کو ’’لاپتہ افراد کا عالمی دن‘‘ کے موقع پر بی این ایم کی جانب سے جرمنی کے تین شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ان مظاہروں کا مقصد بلوچستان میں جاری آپریشن، جبری گمشدگیوں اور بلوچوں کے اغوا کو دنیا کے سامنے عیان کرنا ہے۔ ایسے مظاہرے دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کرتے رہیں گے، تاکہ حکومتی مظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہماری مدد کی جا سکے۔ یہ مظاہرے ایک ہی وقت میں جرمنی کے دارالحکومت برلن، میونخ اور ڈوسلڈورف میں کئے گئے۔ مظاہرین نے پمفلٹ تقسیم کئے اور مقامی لوگوں کو پاکستان کی طالبانائزیشن، اسلامی شدت پسندوں کی ٹریننگ اور بلوچستان میں جاری مظالم اور بلوچستان پر قبضے کے بارے میں آگاہی دی۔ مظاہرین نے حکومتی خفیہ ٹارچر سیلوں میں تشدد اور ’’مارو اور پھینکو‘‘ کی انسانی علامتی نشان بنا کر پیغام پہنچایا کہ خفیہ زندانوں میں لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرکے بعد میں مسخ شدہ لاش کی صورت میں ویرانوں میں پھینکا جاتا ہے یا جعلی مقابلوں میں مارے جاتے ہیں۔ اس وقت پچیس ہزار سے زائد بلوچ فرزند کی اذیت گاہوں میں انسانیت سوز تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جن پر لاپتہ بلوچ اور شہدا کی تصویروں کے سی پیک کے خلاف نعرے آویزاں تھے۔ ترجمان نے کہا کہ ’’لاپتہ افراد کا عالمی دن‘‘ منانے کا اعلان اعلیٰ سطح پر کیاجاتا ہے مگر متاثرین کی داد رسی کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا جاتا۔ اس وقت بلوچستان میںآبادی کے لحاظ سے لاپتہ افراد کا فیصد گنا جائے تو یہ یقیناًدنیا کی سب سے بڑی تعداد ہوگی۔ اسی طرح تین لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کرکے در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ نام نہاد ترقی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد فوجی آپریشن میں شدت لائی گئی ہے۔ جس میں کئی گاؤں و بستی صفحہ ہستی سے مٹا کر مکینوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیاہے۔ سی پیک کی روٹ و قرب و جوار کی آبادی پر بمباری اور شیلنگ کی جاتی ہے، تاکہ خوفزدہ ہوکر علاقہ خالی کریں۔ اس بمباری میں سینکڑوں بلوچ مرد، خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔ مگر بلوچ قوم نے اپنی جد وجہد ترک نہیں کی ہے۔