|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2016

گزشتہ روز خیبرپختونخواہ کے شہرمردان کے علاقے کرسچین کالونی ضلع کچہری میں چار شدت پسند خود کش حملے کی نیت سے داخل ہورہے تھے بروقت کارروائی کے دوران بڑا سانحہ رونما نہ ہوسکا‘ دھماکے اور فائرنگ سے 12 افراد جاں بحق جبکہ 55 افراد زخمی ہوئے‘ جاں بحق افرادمیں تین وکلاء اور تین پولیس اہلکاربھی شامل ہیں‘واقعہ کچہری کے احاطے میں ہوا جبکہ فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں چاردہشت گرد ہلاک ہوگئے جن کے پاس بارودی مواد سمیت خود کش جیکٹس بھی تھے جن کا وزن چھ کلو گرام بتایاجارہاہے۔ پولیس حکام کے مطابق ایک دہشت گرد کچہری کے اندر داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اُڑالیا‘ دھماکے کے بعد ججوں‘وکلاء اور دیگر افراد کو پولیس نے محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ دہشت گرد گزشتہ کچھ عرصے سے وکلاء کو ہدف بنانے کی کوشش کرر ہے ہیں اس سے قبل بھی وکلاء کو نشانہ بنایاگیا ہے‘ دہشت گردملک میں انارکی کی صورتحال پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں اوراُن کا ایجنڈا واضح ہے کہ وہ یہاں افغانستان،عراق اور شام جیسے حالات پیدا کیے جائیں مگر حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو ایک بار پھر دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کیلئے سیکیورٹی پلان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے ایک بار پھر تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیاجائے تاکہ تمام جماعتوں کی متفقہ رائے سے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی عمل میں لائی جاسکے اور کسی صورت ان کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک میں ایک طرف سرمایہ کاری کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف دہشت گردوں کو ٹاسک ملا ہے کہ پاکستان میں صورتحا ل کو بد سے بد تر بنا دیا جائے تاکہ یہاں کوئی ملک سرمایہ کاری نہ کرسکے۔ ہمارے یہاں بیسویں مثالیں موجود ہیں جس طرح یورپ میں شدت پسندوں نے دہشت گردی کے واقعات شروع کیے اور متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں مگر بہتر سیکیورٹی کی حکمت عملی کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پالیاگیااسی طرح اب یہاں بھی ہمیں اپنے معروضی حالات کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو مزید وسیع کرتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی جائے تاکہ ملک میں موجود خوف کے سائے ختم ہوجائیں اب یہ کہنا آسان نہیں کہ دہشت گردی میں کمی واقع ہورہی ہے کیونکہ ہمیں حقائق کے ساتھ سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کررہے ہیں‘حکمرانوں کو اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دیگر ممالک سے رابطوں میں تیزی کس طرح پیدا کی جائے اور جو خدشات وتحفظات ہمیں دیگر ممالک کے متعلق ہیں ان سے آگاہ کیاجاسکے ۔نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا مگر آج پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اس پر اتحادیوں کو آن بورڈ لینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے خاتمے میں وہ پاکستان کا ساتھ دیں کیونکہ صرف چین کے ساتھ ملکر تمام معاملات کو ٹھیک نہیں کیاجاسکتا اس کیلئے دیگر ممالک سے بھی رابطوں کو بڑھانے کی اشدضرورت ہے ۔دہشت گرد اس خطے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کیلئے ہمسایہ ممالک خاص کر افغانستان اور ایران سے بھی بات چیت کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے اثرات اُن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا اس سے قبل مزید حالات خرابی کی طرف جائیں اور خطے میں شدت پسند اپنے نیٹ ورک کو پھیلائیں، انہیں روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کوئٹہ سانحہ ابھی تازہ ہی ہے کہ مردان میں دہشت گرد بڑی کارروائی کرنے جارہے تھے مگر سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی نے ملک کو بڑے سانحے سے بچالیا۔ حکمران سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کرنے کیلئے بہترین تجاویز پیش کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک میں امن وامان قائم ہوسکے کیونکہ امن کے بغیر خوشحالی نہیں آسکتی بہترین مستقبل کیلئے سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔