گزشتہ کئی مہینوں سے متحدہ قومی موومنٹ شدید دباؤمیں سیاست کررہی ہے۔ مشرف کے دور حکومت یعنی2000ء کے بعد بننے والی متحدہ قومی موومنٹ ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ سندھ کے شہری علاقے کراچی‘حیدرآباد‘میرپورخاص اور سکھر سمیت دیگر چھوٹے شہروں میں اس کا اثر بڑھتاگیااور ملک گیر تنظیم کاری بھی تیزکی گئی حالانکہ روزاول سے یہ بات واضح تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک لسانی جماعت ہے جو مہاجروں یعنی اردو بولنے والوں کیلئے بنی تھی اور اس کی پالیسی میں اردو بولنے والوں کو فوقیت دینا سمیت کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا ایجنڈا بھی شامل تھا اور ایسے نقشے پہلے بھی برآمد ہوچکے تھے جن میں کراچی کو علیحدہ ریاست ’’جناح پور‘‘ کے نام سے دکھایاگیا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جس زمانے میں مضبوط جماعت بن کر ابھری، وہ آمریت کا دور تھا اور یہ جماعت آمریت کے ہی سائے تلے مضبوط ہوا اور اپنی جڑوں کو پھیلاتا گیا۔متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کریک ڈاؤن ہمیشہ جمہوری ادوار میں ہوا ‘متحدہ قومی موومنٹ وہی جماعت تھی جس کے قائد کے ایک اشارے پرکراچی ،حیدرآباد،میرپورخاص میں جلاؤگھیراؤ،ہڑتال ،ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ہے اور کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کچھ بول اور لکھ سکے ۔مگرآج دنیا ہی بدل گئی ‘سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی عائد کردی گئی اور میڈیا پر نشر نہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیااس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے پریس کانفرنسز جو گھنٹوں بھر میڈیا پر دکھائے جاتے تھے وہ محدود ہوکر بمشکل دس منٹ تک رہ گئے ۔الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر نے آخری کیل خود لگادی‘ اب معاملات شدید کنفیوژن کا شکار ہوتے جارہے ہیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا مؤقف ہے کہ لندن سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی جائے گی پارٹی آئین میں ترمیم کی گئی ہے الطاف حسین کی مرضی کے بغیر فیصلے ہونگے اور مشاورت پاکستان میں ہی ہوگی۔ دوسری جانب عزیز مصطفی آبادی اور واسع جلیل نے فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہا ہے کہ مائنس الطاف کسی صورت نہیں چلے گی الطاف حسین ہی ایم کیوایم اور ایم کیوایم ہی الطاف حسین ہیں یعنی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کرے گی۔ آنکھ مچولی کا سلسلہ تاحال جاری ہے ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کچھ اور جبکہ لندن میں بیٹھے اراکین کچھ اور مؤقف اختیار کررہے ہیں‘ متحدہ قومی موومنٹ کی ڈوری اب بھی الطاف حسین کے ہاتھوں میں ہے اگر نہیں تو جب فاروق ستار پالیسی بیان دیتے ہیں تو اس کی تردید جب لندن کرتی ہے تو فاروق ستار واضح مؤقف اختیار کرنے کے بجائے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہیں چونکہ اب بھی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین ہی ہیں اس سے سب ہی آگاہ ہیں کہ انہیں قائد کے عہدے سے الگ نہیں کیا گیا ہے۔ فاروق ستارشدید دباؤ میں متحدہ قومی موومنٹ کو چلارہے ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں ہر عمل کا جوابدہ ہوناہے اور پالیسی کو واضح کرناہے۔ دوسری جانب لندن میں بیٹھے قائد کو بھی منانا ہے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں اور متحدہ قومی موومنٹ کو پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے مکمل آزادی مل سکے۔ پھر آگے چل کر الطاف حسین کی اشتعا ل انگیز تقاریر پر معافی اور معاملے کو عدالت میں لے جاکر حل کیاجاسکے ‘ مگر اب کے بار یہ آسان نہیں کیونکہ الطاف حسین کو رعایت دی گئی تو بہت سارے سوالات اٹھائے جائینگے جن کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اپنی تمام تر توانائی بروئے کار لارہی ہے کہ جلدہی سے وہ اس مصیبت سے نکل جائے مگر اس کے آثار فی الوقت دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ سب کے علم میں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پتنگ کی ڈوری الطا ف حسین کے پاس ہے اور الطاف حسین اس کھیل میں اکیلے نہیں اُن کے ساتھ اور بھی لوگ شامل ہیں ۔الطاف حسین کی تقاریر پرمعاملات اب معافی تلافی سے آگے بڑھ چکے ہیں کیونکہ ایک ہی طرح کی تقاریر پاکستان کے شہر کراچی سمیت برطانیہ‘امریکہ میں کیے گئے جس پر وہاں موجود اُن کے کارکنان لبیک کررہے ہیں ۔اب موجودہ حکومت کون ساراستہ اپناتی ہے آئینی مشاورت کے بعد الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6 کا استعمال کیا جائے گایا متحدہ قومی موومنٹ پرپابندی لگائی جائے گی جو پاکستان کی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی اور ہلچل پیدا کرے گی ۔