|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2016

پاکستان کی تاریخ میں اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنے والے اہم رہنماء نوابزادہ نصراللہ خان سے ہر ذی شعور واقف ہے جب بھی کسی حکومت کے خلاف مؤثر تحریک کا آغاز کیاجاتا تو نوابزادہ نصراللہ خان اس میں پیش پیش رہتے البتہ اُن کی سیاسی تاریخ بہتر انداز میں گزری اور وہ ہمیشہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہاں تھے یہی خواب لیکر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔آج جب عمران خان کی سیاست پر نظر پڑتی ہے تو دونوں خان صاحبان کی نقطہ نگاہ کچھ الگ دکھائی دیتی ہے، عمران خان کوئی بھی ایک ایسا ایشو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جوموجودہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف یا سابق صدر آصف علی زرداری کے متعلق ہو‘ اس سے قبل اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا گیا جس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اس تحریک کے پیچھے کچھ اور قوتیں ہیں جو نوازشریف کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور یہ بات تحریک انصاف کے سابق رکن جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس کے دوران کئی۔پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جاری دھرنے کے دوران پی ٹی وی سمیت مختلف ہاؤسز پر حملے بھی کیے گئے مگر عمران خان نے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نہیں تھے دوسری جانب طاہر القادری اور شیخ رشید بھی شانہ بشانہ نظرآرہے تھے اور اب ایک بارپھر یہ تینوں کھلاڑی پھر ایک ساتھ نظر آرہے ہیں اور اس بار معاملہ ہے پانامہ لیکس کا جس میں وزیر اعظم کے احتساب کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل الائنس نے مطالبہ کیا کہ پانامہ لیکس کی شفاف انداز میں تحقیقات ہونی چاہیے مگر اس الائنس میں اپوزیشن جماعتیں شامل نہیں صرف شیخ رشید اور طاہر القادری کی جماعتیں حسب معمول شریک ہیں دیگر اپوزیشن جماعتیں معاملات کو عدالت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی کمیشن بنائی جائے جو پانامہ لیکس کے متعلق چھان بین کرکے رپورٹ پیش کرے۔ عمران خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ نیب‘ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن حکمرانوں کے تابع ہے اس لیے اُن سے کوئی امید نہیں پھر کس ادارے پر وہ اتنا بھروسہ کرتے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں یہ معاملہ سونپا جائے۔ کمیشن کے متعلق ہمارے یہاں ریکارڈ تو ماشاء اللہ بہت شاندار رہا ہے جس پر شاید ہی کوئی بھروسہ کرے ۔جب سے نواز حکومت بنی ہے عمران خان کی سیاست کا بیشتر حصہ دھرنا ،احتجاجی مظاہروں اور لانگ مارچ میں گزراہے اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ خیبرپختونخواہ میں اُن کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی جس کی وجہ ڈرون حملوں کے خلاف ان کی تحریک تھی جس کے باعث وہاں کے عوام نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا۔اسی طرح کراچی کی سیاست میں انہوں نے جب متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف اس وقت محاذ کھولا جب متحدہ قومی موومنٹ ایک بڑی جماعت کے ساتھ کراچی میں ایک بااثر جماعت تھی جس کی ایک کال پر پورا شہر بند ہوجاتا تھا۔اسی دوران عمران خان نے الطاف حسین سمیت متحدہ کے خلاف لب کشائی شروع کی اور شہر میں انہیں ایم این اے اور ایم پی اے کی نشستیں ملیں مگر اب کی بار ملکی سیاست تبدیل ہوچکی ہے ایک طرف سی پیک کا معاملہ ہے تو دوسری طرف شدت پسندی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے‘ ان دو ایجنڈوں پر اپوزیشن جماعتیں زیادہ شور مچارہی ہیں مگر عمران خان نے پانامہ لیکس کو اپنا ایجنڈا بناکر موجودہ حکومت کے خلاف پھر ایک محاذ کھول دیا ہے کیا اب کی بار عمران خان کامیاب ہونگے یا اسلام آباد ھرنے کی طرح پھر خاموشی سے واپسی کا راستہ اختیار کرینگے کیونکہ اسلام آباد میں طویل دھرنے کے بعد یہ تاثر عام ہورہا تھا کہ جلد ہی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ جوائنٹ پارلیمنٹ اجلاس کا انعقاد کیاگیا اور اس دھرنے کے خلاف تمام حکومتی واپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر نظر آئیں۔ اب کی بار نتائج کیا نکلیں گے فی الوقت ایسا کچھ نظر نہیں آرہا کہ پانامہ لیکس کو لیکر وہ موجودہ حکومت کو رخصت کرسکیں گے‘ عمران خان واقعی احتساب چاہتے ہیں تو مؤثر طریقہ یہی ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرے اور حکومت سے جواب طلبی کریں کیونکہ اس وقت ملکی سیاسی حالات دھرنا اورمارچ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ عمران خان اس مارچ سے بھی شاید کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے ، احتساب مارچ کے کامیاب ہونے کے آثار فی الوقت دکھائی نہیں دے رہے ۔عمران خان کی سیاست اگر اسی طرح رہی تو یہ کہنامشکل ہوگا کہ اگلے الیکشن میں وہ بھاری اکثریت لیکر ایوان میں بیٹھیں گے بلکہ 2013ء کے الیکشن کی پوزیشن میں بھی نہیں رہینگے۔