پاکستان صرف پاکستانیوں کے لئے بنا تھا غیر ملکیوں کے لئے نہیں ۔غیر ملکیوں کا پاکستان کے وسائل، پاکستان کی دولت اور ملک کے اندر موجود ملازمتوں اور روزگار کے ذرائع پر ان کانہ قانونی حق ہے اور نہ ہی اخلاقی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے رہنماء ملک دشمن اور عوام دشمن رویہ سے اجتناب کریں اور حکومت پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی دباؤ نہ ڈالیں کہ وہ پچاس لاکھ سے زائد افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں مزید پانچ سال رہنے دے۔ بعض پارٹیوں نے ان کو اپنا حلقہ انتخاب بنایا ہوا ہے ان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نظر آتے ہیں یا جلسوں میں لائے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف بعض سیاسی رہنماء اس غیر قانونی عمل میں بھی ملوث ہیں کہ انہوں نے جعلی دستاویزات تصدیق کروا کر ان افغان مہاجرین اور افغان غیر قانونی تارکین وطن کے لئے شناختی کارڈ حاصل کیے ۔ پاسپورٹ بنائے اور بین الاقوامی ممالک کے دورے کیے ، ہیروئن اسمگلنگ میں ملوث رہے ۔ ان میں بعض کو موت کی سزا ہوئی اور بد نام پاکستان ہوا کیونکہ ان افغان مجرمین کے پاس سے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بر آمد ہوئے ۔ سب سے اہم ترین معاملہ ملا اختر منصور کا ہے ۔ اس کو امریکی ڈرون نے احمد وال کے قریب نشانہ بنایا ، اس کے پاس سے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بر آمد ہوا ۔ وہ شخص 1999ء سے جعلی دستاویزات بنا کر اور مقامی رہنماؤں اور افسران کی مدد سے پاکستان میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا، وہ اس خطے کا سب سے بڑا آدمی تھا، دہشت گردوں کا سربراہ تھا ۔ وہ کیسے موجود تھا، اس کو کس کی امداد حاصل تھی، حکومت نے اس کی موجودگی عوام سے کیوں چھپا کر رکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ اس کو قیمتی اثاثہ سمجھ کر پناہ دی گئی اور اس کی حفاظت کی گئی ۔ دوسری جانب ہمارے سیکورٹی اداروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ تمام غیر ملکی تارکین وطن خواہ وہ اقوام متحدہ کے مہاجروں کی صورت میں کیوں نہ ہوں پاکستان کے سلامتی کے لئے خطرہ ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ اکثر خودکش حملہ آور افغان تھے، ان میں کوئی بلوچ کوئی پنجابی اور کوئی سندھی نہیں تھا ۔ظاہر ہے کہ افغان غیر قانونی تارکین وطن پاکستان کی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہیں لہذا ان کو جلد سے جلد اس ملک سے نکالا جائے ۔اگر رضا کارانہ طورپر خود جائیں تو یہ سب سے بہتر ہے ورنہ ان کو گرفتار کرکے ان کے تمام اثاثے ضبط کرکے ان کو ملک سے باہر نکالا جائے۔ افغان حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بعض پشتون سیاست دان اور پارٹیاں یہ موقف اپنا رہی ہیں کہ افغان بھارت کے قریب تر ہوجائیں گے ۔ یہی بات پہلے دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے چند ماہ قبل کہی تھی آپ خواہ کچھ کر لیں افغان ‘ بھارت اتحاد موجودہ صورت حال میں صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا ۔ خواہ ہم افغان غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان میں مزید دس بیس سالوں کے لئے جگہ دیں افغان حکومت کے رویے میں تبدیلی نا ممکن نظر ہے ۔ اس لئے یہ دلیل فضول ہے کہ افغان غیر قانونی تارکین کو پاکستان میں رہنے دینے کے بعد کابل کی حکومت رام ہوجائے گی ۔ ہم یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان کے وسائل ،پاکستان کے ذرائع روزگار اور ملازمتوں پر صرف اور صرف پاکستانیوں کا حق ہے، غیر ملکیوں کو ملک کے عوام پر مسلط نہ کیاجائے۔ ان کے پاس دس لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ہیں اتنی بڑی تعداد میں وہ روزگار کے ذرائع پر قابض ہیں ملک کے اندر جتنی بھی سہولیات پاکستانیوں کے لئے حکومت فراہم کررہی ہے ان میں افغان غیر قانونی تارکین وطن اتنے ہی حصہ دار ہیں مثلاً صرف بلوچستان کے بڑے اسپتا لوں کا دورہ کریں تو وہاں پر اسی فیصد سے زیادہ افغان شہری ہمارے وسائل اور طبی سہولیات استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کوئٹہ شہر میں ریاست نے پانچ بڑے بڑے اسپتال بنائے ہیں وہاں پر اسی فیصد مریض افغان ہیں اس لئے افغان عوام خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کا پاکستان کی سرزمین اور وسائل پر کوئی حق نہیں ہے ۔ سیاسی حضرات اپنے عوام کی خدمت کریں افغان غیر قانونی تارکین وطن کو بھول جائیں ،ان کو سیکورٹی افواج کے حوالے کیاجائے تاکہ منظم انداز میں ان سب کو اپنے گھروں کو روانہ کیاجاسکے ۔