اسلام آباد: اراکین سینٹ نے کوئٹہ میں دہشتگردانہ واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں را ملوث ہے تو عالمی سطح پر ثبوت پیش کئے جائیں ٗ واقعہ کی تحقیقات کر کے ایوان کو آگاہ کیاجائے ٗکوئٹہ کا سانحہ ہماری نسل کشی کے مترادف، ہمیں پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ٗ وفاقی حکومت سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین کیلئے کچھ کرے۔ بدھ کو سانحہ کوئٹہ اور مردان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے وکلاء کو اس پائے کا وکیل بننے میں 40 سال لگے۔ سینیٹر داؤد خان اچکزئی نے کہا کہ کوئٹہ کے سانحہ سے قبل بھی کوئٹہ میں وکلاء پر دو حملے ہوئے‘ ایک وکیل اور ایک لاء کالج کے پرنسپل کو بھی قتل کیا گیاٗ سانحہ سے قبل جس وکیل رہنما کو قتل کیا گیا اسے ہسپتال کس نے پہنچایا‘ ابھی تک پتہ نہیں چلا، واقعہ کی تحقیقات سے اس ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ عوام محفوظ نہیں ہیں‘ کب تک ہم اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے‘ کوئٹہ کا سانحہ ہماری نسل کشی کے مترادف، ہمیں پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہم پہلے پاکستانی بعد میں بلوچی ہیں، حکومت ضیاء دور کی پالیسی کو ختم اور خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے ورنہ ایسے سانحات ہوتے رہیں گے‘ ہمسایہ ملکوں سے اچھے تعلقات قائم کئے جائیں۔ اگر بھارتی خفیہ ایجنسی ملوث ہے تو عالمی سطح پر اس کے ثبوت فراہم کئے جائیں۔ وفاقی حکومت سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین کے لئے کچھ کرے۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ سانحہ میں 65 وکلاء کو شہید کیا گیا‘ ملک میں 35 ایجنسیاں ہیں‘ کوئٹہ میں ایف سی کے ہوتے ہوئے یہ واقعہ کیسے رونما ہوا‘ ہم کمزریوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں غلط ہیں، سانحہ کوئٹہ پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے سینیٹر گیان چند نے کہا کہ واقعات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا جس مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ واقعہ کی ’’ را‘‘ یا طالبان پر ذمہ داری ڈال کر حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی، عملی اقدامات کئے جائیں‘ ہم اپنے اداروں سے توقع رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ختم کیا جائے‘ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جائے‘ دہشتگردوں کا یہ آخری وار نہیں ہے، حکومت ہر سطح پر اقدامات کرے۔ سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ ہم نے سانحہ کو روکنے کے لئے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جو ضروری تھے، ہمیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے ٗمیں مانتا ہوں کہ ’’ را‘‘ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے‘ حکومت کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں ٗمیں کابل اور افغان حکومت کو بھی جانتا ہوں‘ افغانستان کے راستے این ڈی ایس اور ’’ را‘‘ مداخلت کر رہی ہے‘ اگر مذہب کے نام پر دہشتگردی ہو تو اس کا سہولت کار مدرسے میں تلاش کیا جاتا ہے مگر ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کا سہولت کار کون ہے، را پر ذمہ داری ڈال کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے،اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خودکش حملہ نہیں تھا، خودکش اس لئے کہا جاتا ہے کہ تفتیش رک جائے۔ نائن الیون سے پہلے مغربی بارڈر پر کسی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ جنرل مشرف نے ’’ را‘‘ اور این ڈی ایس کے لئے ماحول مہیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اور مساجد سے کتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے اور کتنے سیاسی دفاتر سے پکڑے گئے‘ مدارس سے کتنا اسلحہ پکڑا گیا یہ بھی اس ایوان میں بتایا جائے‘ جنہوں نے سو سے اوپر قتل کرنے کا اعتراف کیا وہ کہاں سے پکڑے گئے۔1947ء سے آج تک کسی مدرسے سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا گیا، پارلیمان نے کہا کہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کریں اس میں رکاوٹ کون ہے۔ سینیٹر گل بشریٰ نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلائی جائے۔ سینیٹر جان کینتھ ویلیم نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مسیحیوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کے عوام صبر کرنے والے ہیں۔ اقتصادی راہداری گیم چینجر ہے، ہمیں اس سے پہلے بلوچستان میں تبدیلی لانا ہوگی۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے کہا کہ 27 سے زائد زخمی طبی امداد نہ ملنے سے جاں بحق ہوئے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے جو سوال اٹھائے ہیں ان کی تائید کرتا ہوں۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہاکہ کوئٹہ میں جو ہوا اس پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے کل جو کابل میں ہوا وہ بھی افسوسناک ہے۔ پیرس‘ فلوجہ میں بھی جو دہشتگردی ہو رہی ہے اس پر بھی ہمارے دل غمزدہ ہیں۔ ہماری فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دشمن کے عزائم ناکام بنائے‘ کل یوم دفاع بھی تھا اور کل ہی انگریزی اخبار کی شہ سرخی تھی کہ سینیٹرز نے فوج اور اداروں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ٗفوج اور انٹیلی جنس اداروں کی وجہ سے ہی ہم محفوظ ہیں اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ مغربی سرحد پر ہم نے 661 چیک پوسٹیں بنائی ہیں دوسری طرف 60 پوسٹیں ہیں۔ وہاں حکومت کی عملداری نہیں ہے۔ افغان حکومت تعاون کر رہی ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہیے کہ افغانستان کو ہم پانچواں صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ سٹریٹجک گہرائی کے حوالے سے بھی مفروضوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے۔ سی پیک پاکستان کا منصوبہ ہے‘ حملہ ملک میں جہاں بھی ہو یہ پاکستان پر حملہ ہے۔ دشمن عدم استحکام پیدا کرنا اور ملک کو غیر محفوظ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ دشمنوں سے ہضم نہیں ہو رہا‘ یہ منصوبہ ملک کی تقدیر بدلے گا۔ بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔ چار کراسنگ پوائنٹس ہی نہیں سب کراسنگ پوائنٹس پر بارڈر مینجمنٹ کی جائے گی۔ سرحدی انتظام ضروری ہے۔ یہ ایوان وفاق کا فورم ہے‘ یہاں ہم ایک پاکستانی کی حیثیت سے بات کرتے ہیں۔ ہمارے لئے پاکستان اہم ہے‘ صوبے انتظامی سرحدیں ہیں۔ یہ ملک ہم نے اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے۔ اپنی تنقید سے خبر ضرور بنتی ہے اس لئے مراعات لے کر ہمیں خود پر ہی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ وفاق بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب‘ فرقہ‘ علاقہ نہیں ہوتا۔ دہشتگردی 70 فیصد کنٹرول ہوگئی ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ آئندہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ میرا بیٹا شہید ہوا ہے‘ اس جیسے کئی بیٹے شہید ہوئے ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں کو بچا سکتے ہیں‘ کیا ہمارے پاس ایسی سہولتیں دستیاب ہیں‘ سی پیک نہیں تھا تب بھی حملے ہوتے تھے۔ ماضی میں جو غلطیاں ہم نے کی ہیں ان کے نتیجے میں یہ جنگ 50 سال تک کہیں نہ کہیں جاری رہے گی‘ کیا ہم اپنے بچوں کو بچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کوئٹہ کے ہسپتال میں صرف تین سرجن ہیں۔ ہسپتال میں علاج کے لئے سہولتیں ناکافی ہیں۔ لوگ فرش پر پڑے تھے اور ان کا خون بہہ رہا تھا۔ وی آئی پیز کے دورے کے دوران ان زخمیوں کو وہاں سے ہٹا دیا جاتا تھا۔ بیشتر وکلاء سسٹم کی کمزوریوں اور بدانتظامی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ کل بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں‘ سانحہ کوئٹہ کے بعد اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے‘ کوئٹہ میں روزانہ قانون نافذ کرنے والے اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی شہادت ہوتی ہے‘ آئندہ کے لئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پر ہم سب غمزدہ ہیں۔ دہشتگردی کرنے والوں کا نہ کوئی مذہب ہے نہ ملک نہ کوئی قوم‘ ہمیں ان ظالموں کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنا ہوگی‘ اس ایوان سے دہشتگردوں کو مضبوط پیغام جانا چاہیے‘ دہشتگرد ایک خاص سوچ کے ساتھ نکلے ہوئے ہیں۔ آج ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرنا چاہیے۔ فرحت اللہ بابر نے جو سوال آج پوچھے ہیں وہ پہلے کیوں نہیں پوچھے‘ نائن الیون کے بعد اس جنگ کو کون یہاں لایا۔ ہمیں اپنے سیکیورٹی اداروں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ جو خود کو لبرل کہنا چاہتے ہیں وہ مذہب کے خلاف اور جو خود کو ڈیموکریٹ ثابت کرنا چاہتا ہے سیکیورٹی اداروں کے خلاف باتیں شروع کردیتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستان کا یوم آزادی شان و شوکت سے منایا۔ پختون ہمارے بھائی ہیں‘ ہمارے دوست ہیں‘ افواج پاکستان کی بڑی قربانیاں ہیں۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے‘ یہ پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے۔ فوج کی قربانیوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ میں بھی سینیٹر جمالدینی کے صاحبزادے اور دیگر وکلاء کے شہید ہونے پر ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں‘ دو دن سے ہر آدمی اس ایوان میں پوائنٹ سکورنگ میں لگا ہوا ہے‘ وکلاء کو ہدف بنانے کے پیچھے مقاصد ہوں گے‘ ہم کس کو مخاطب کرکے تقریریں کر رہے ہیں‘ یہ وہی چوہدری نثار ہیں جنہوں نے کئی اقدامات کئے ہیں۔ اس ایوان کی تقریریں سن کر لگتا ہے دہشتگردوں کے جو اہداف تھے وہ پورے ہو چکے‘ دہشتگردی کی جنگ فرد‘ صوبے‘ حکومت نہیں لڑتی قوم لڑتی ہے۔ ہم خطے کا واحد ملک نہیں جو دہشتگردی کا شکار ہیں۔ خطے کے دیگر ملک قوم بن کر لڑ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ یہاں حکومت کے نہیں قوم کے وزیر داخلہ ہیں۔ سانحہ کوئٹہ قومی سانحہ ہے‘ کسی علاقے کا سانحہ نہیں ہے۔ ہمیں شہیدوں‘ غازیوں پر فخر کرنا چاہیے‘ ہم آج سے عہد کریں کہ ایسے سانحات میں ہم متحد رہیں گے۔ کوئٹہ میں شہید ہونے والے پوری قوم کے بچے تھے۔اجلاس کے دور ان صدر نشین سینیٹر احمد حسن نے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے صاحبزادے اور دیگر شہداء کے لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ بھی لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کسی سانحہ کے بعد اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے جو اظہار خیال کیا ہے اس کی روشنی میں صوبائی حکومتوں کو ہدایات دی جائیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ابھی تک دہشتگردتنظیموں اورریاستی اداروں کاگٹھ جوڑنہیں توڑاگیا،افغانستان کوپانچواں صوبہ کہنے کی پالیسی پہلے بھی ناکام ہوئی ٗاب بھی ہو گی۔ ہماری اسٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے آپ صرف3کراسنگ پوائنٹس کی کیوں بات کرتے ہیں،اب دوسرا پالیسی بیان اٹھے گا کہ افغانستان سے بارڈر مینجمنٹ کی جائے ،وزیرداخلہ ریاستی اداروں اوردہشت گرد تنظیموں کے گٹھ جوڑپر بھی ارشاد کریں، اگر گٹھ جوڑ نہ ہوتا تو وہ اسلام آباد آنے کی جرات نہ کرتے، ریاستی اداروں کے بعض لوگوں کا دہشتگرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ ثابت ہو چکا ہے، یہ گٹھ جوڑ دہشتگرد تنظیموں اور ریاست کے اداروں کا ہے،اس سے بڑھ کے ایک گٹھ جوڑ ہے۔