واشنگٹن : سینیٹر مشاہد حسین کی قیادت میں پاکستانی وفد نے صدر اوباما کے خصوصی مشیر پیٹر لوائے سے ملاقات کی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے دستاویزی ثبوت حوالے کئے۔ مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہریوں کیخلاف بھارتی بربریت جاری ۔ عالمی ضمیر کو جگانے کیلئے پاکستان کا دو رکنی پارلیمانی وفد وائٹ ہاؤس پہنچ گیا۔ مشاہد حسین اور شذرا منصب کی صدر اوباما کے خصوصی مشیر پیٹر لوائے سے ملاقات ہوئی اور مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کے مظالم کے ثبوت حوالے کئے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ دو ماہ کے دوران سیکڑوں بے گناہ کشمیری بھارتی درندگی کا نشانہ بن چکے ہیں ، خواتین اور بچے بھی بھارتی جارحیت سے محفوظ نہیں رہے ، ڈیڑھ سو شہری پیلیٹ گنز کے باعث بینائی کھو چکے ہیں۔ وفد نے بھارتی واویلا مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر ا ڑی حملوں جیسے جھوٹے الزامات لگا رہا ہے۔ وفد نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ بھی دہرایا،اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کے خصوصی نمائندے مشاہد حسین سید نے بھارت کو پاکستان میں مداخلت پر شٹ اپ کال دیتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ ا گر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت بند نہ کی تو پھرپاکستان بھی بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت پر مجبور ہوگا، امریکہ نے مسئلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے تعاون نہ کیا تو پاکستان چین اور روس سے مدد لے گا،امریکہ مسئلہ کشمیر میں مداخلت نہیں کرتا تو افغانستان میں استحکام بھی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کابل میں امن ہوجائے اور کشمیر جلتا رہے۔بھارتی اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کے خصوصی نمائندے مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی شذرا منصب جو امریکہ کے دورے پر ہیں نے امریکی صدر باراک اوبامہ کے خصوصی مشیر سے ملاقات کی، سمپسن انسٹی ٹیوٹ نامی امریکی تھنک ٹینک کو بھی پاکستانی موقف سے واضح طور پر آگاہ کیا۔پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ اگر امریکہ مسئلہ کشمیر میں مداخلت نہیں کرتا تو افغانستان میں استحکام بھی ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کابل میں امن ہوجائے اور کشمیر جلتا رہے۔وفد نے کشمیر کو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بنیادی تنازع قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس اہم ترین مسئلے کو حل کئے بغیر خطے میں استحکام ممکن نہیں۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ انھیں امریکہ کو بتانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور امریکہ کو اس مسئلے میں ثالثی کرنی چاہیے۔ امریکہ اب عالمی طاقت نہیں رہا، اس کی طاقت کم ہورہی ہے اس کو بھول جائیں۔انکا کہنا تھاکہ روس پہلی بار پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر راضی ہو گیا ہے جبکہ چین اس کا انتہائی قریبی دوست ہے اور امریکہ کو اس بدلتے ہوئے علاقائی توازن کو سمجھنا ہوگا۔ ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘کے مطابق مشاہد حسین سید نے امریکی تھنک ٹینک کے ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بلوچستان سے متعلق بیان کا معاملہ بھی اٹھایا۔بھارتی اخبار کا کہنا ہے کہ مشاہد حسین سید نے واضح کیا کہ اگر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت بند نہ کی تو پھر پاکستان خالصتان،ناگا لینڈ،تری پورہ ، آسام، اور ماؤ تحریکوں کی حمایت پر مجبور ہوگا۔مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے تاہم اگر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت بند نہ کی تو پھر پاکستان بھی مجبور ہوگا اور ادلے کا بدلہ دے گا۔ آپ رولز آف گیم چینج کررہے ہو یہ ادلے کے بدلے والی بات ہوجائے گی ۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت مذاکرات کی بحالی کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کرے تو پاکستان کچھ بھی کرنے کو تیا رہے ۔