کراچی: 6 سال کی تاخیر کے بعد بالآخر پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے سے آپریشنل ہونے کے لیے تیار ہوگئی ۔
پاکستان ڈیپ واٹر کنٹینر پورٹ (پی ڈی ڈبلیو سی پی) اسٹریٹیجک طور پر کراچی بندرگاہ کے مشرقی حصے کی جانب واقع ہے اور ڈان کو دستیاب وستاویز کے مطابق ٹرمینل آپریٹر جنوبی ایشیا پاکستان ٹرمینلز(ایس اے پی ٹی) نے پورٹ کی تکمیل کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔
چونکہ فی الحال پورٹ کے پاتھ کا کی گہرائی زیادہ نہیں ہے لہٰذا آپریٹر نے منصوبہ بنایا ہے کہ ابھی محض 4 ہزار سے 5 ہزار ٹی ای یوز(ٹوئنٹی فٹ ایکولینٹ یونٹ) گنجائش کے حامل چھوٹے بحری جہازوں کو لنگر انداز ہونے دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ’گوادر پورٹ کے مستقبل پر سینیٹ کمیٹی کو خدشات‘
ٹرمینل آپریٹر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آزمائشی طور پر بندرگاہ کو آپریشنل کرنے کا مقصد ان چھوٹے موٹے مسائل کو ختم کرنا ہے جو عام طور پر اس طرح کے بڑے پروجیکٹ میں رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ساتھ ہی اس آزمائش سے بندرگاہ کو پورٹ کی پیرنٹ کمپنی ہانگ کانگ کی ہچیسن پورٹ ہولڈنگز (ایچ پی ایچ) کی جانب سے فراہم کردہ چیک لسٹ کے مطابق جانچنے کا بھی موقع مل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ آپریشنز سے آپریٹر کمپنی ایس اے پی ٹی کو بندگارہ میں اگر کوئی نقص ہوا تو اسے برقت درست کرنے کا موقع ملے گا۔
واضح رہے کہ پی ڈی ڈبلیو سی پی پر کام کا آغاز 2007 میں ہوا تھا اور اسے 2011 کے وسط تک آپریشنل ہونا تھا اور یہ پروجیکٹ کراچی پورٹ ٹرسٹ نے شروع کیا تھا۔
معاہدے کے تحت ایچ پی ایچ کی ذیلی کمپنی ایس اے پی ٹی کو آن شور پروجیکٹ کی تکمیل کرنی تھی جس میں ٹرمینل کی تعمیر، آلات اور عملے کی تعیناتی بھی شامل تھی۔
مزید پڑھیں: گوادر پورٹ چین کے حوالے، انڈیا کو تشویش
کے پی ٹی کو پورٹ کے لیے زمین فراہم کرنی تھی جبکہ نیوی گیشنل چینلز کا قیام، پورٹ بیسن اور سڑکوں تک رسائی دینا بھی کے پی ٹی کی ذمہ داری تھی۔
تاہم کے پی ٹی نے پورٹ بیسن کے لیے کھدائی کا تو مکمل کرلیا تھا لیکن مطلوبہ اپروچ چینل کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا تھا جس کی وجہ سے کام رک گیا تھا۔
تاخیر کے بعد کے پی ٹی نے گزشتہ ہفتے ڈچ کمپنی سے اپروچ چینل کی کھدائی کا معاہدہ کیا جس کے تحت 2.985 ارب روپے کی لاگت سے 50 لاکھ کیوبک میٹر ریت اور مٹی نکال کر اسے گہرا کیا گیا۔
ٹرمینل آپریٹر کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ پروجیکٹ کے پہلے فیز میں ایس ای پی ٹی نے ٹرمینل کی تعمیر اور آلات لانے کا عمل مکمل کیا جن میں پانچ شپ ٹو شور آہنی کرینز اور 15 ربر ٹائر گانٹریز شامل تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ آپریٹر نے ایڈمنسٹریشن ، کسٹمز اور کینٹین کے لیے تین بلڈنگ بلاکس بھی تعمیر کیں جبکہ ایک 28 میگا واٹ کا بجلی گھر اور 5 لاکھ 50 ہزار ٹی ای یوز سالانہ گنجائش کا حامل اسٹوریج یارڈ بھی تیار تھا۔
پی ڈی ڈبلیو سی پی کو اس وقت بھی دو بڑے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے تاخیر ہورہی ہے، پہلا مسئلہ اپروچ چینل کی کھدائی اور دوسرا مسئلہ ٹرمینل کے اندر اور باہر کارگو کی نقل و حرکت کے لیے پورٹ ربط سازی ہے۔
ترجمان کے مطابق سب سے سنجیدہ مسئلہ یہ ہے تھا کہ معاہدے کے تحت کراچی ڈاک لیبر بورڈ کے محصول خراج کا اطلاق پاکستان ڈیپ واٹر کنٹینر پورٹ پر نہیں ہورہا تھا تاہم اب 1300 روپے فی ٹی ای یو کے حساب سے اس کا اطلاق کردیا گیا ہے۔
دریں اثناء کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اپروچ چینل کی کھدائی اور اسے گہرا کرنے کا ٹھیکہ اسی چینی کمپنی کو دیا گیا تھا جس نے پورٹ بیسن میں کھدائی کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ بعد میں کے پی ٹی نے فنڈز بچانے کے لیے اپنے ڈریجرز کے ذریعے اپروج چینل کی کھدائی کا فیصلہ کیا تاہم بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا کیوں کہ کے پی ٹی کے ڈریجرز(کھدائی میں استعمال ہونے والی مشینری) کو بعض وجوہات کی بناء پر مرمت کے لیے پانی سے نکالنا پڑا اور دوسرے ڈریجرز کی مدد سے کھدائی کو مکمل کرنے کی کوشش بھی ناکام ہوگئی۔