|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2016

اسلام آباد : پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کی کاکردگی کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب میں قومی دولت لوٹنے والوں سے مک مکا سے ڈیل کرنے کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ نیب پٹواریوں کو فوری گرفتار کر رہا ہے جبکہ طاقتور لوگوں سے ڈیل کر کے چھوڑ رہا ہے۔ پی اے سی کے چیئر مین سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سٹیل مل کی 20ہزار ایکڑ زمین پر طاقتور لوگوں نے نظریں جما رکھی ہیں۔ پی اے سی کا اجلاس منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں وزارت پیداوار کے مالی سال2011-12ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزارت پیداوار میں کروڑوں روپے کی کرپشن پکڑی گئی ہے کرپشن ریفرنس بھی نیب کو بھجوا دیا ہے لیکن نیب کرپٹ لوگوں کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔ نیب کے نمائندہ نے پی اے سی کو بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ کروڑوں روپے کرپشن کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ یہ لوگ کرپشن کرنے کے بعد ہم سے تعاون کر رہے ہیں جس پر پی اے سی نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور مقدمات کی تفصیلات او رمکمل ریکارڈ طلب کر لیا۔ پاکستان سٹیل ملز کی سیل 2011-12 15ارب روپے تھی جبکہ خسارہ 22ارب تھا خسارہ65 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ادارہ 2008ء تک منافع میں چلتی رہی جبکہ بعد میں مسلسل خسارہ میں ہے۔ گزشتہ10جون سے یہ مل بند ہو چکی ہے کیونکہ گیس فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ فنڈز نہ ہونے سے خام مال خریدا نہیں ہوا۔ خورشید شاہ نے کہا یہ قومی اثاثہ ہے اس کی حفاظت کی جائے ۔ مل سے زیادہ اس زمین کی 40فیصد قیمت ہے اجلاس میں خورشید شاہ نے کہا کہ روس اور چین نے مل کو چلانے سے معذوری ظاہر کر دی ہے اب یہ حکومت خود ہی چلائے گی۔19ہزار ایکڑ زمین سٹیل مل کی ملکیت میں ہے اس کی حفاظت کرنا ہو گی۔ حکومت مل چلانا چاہتی ہے تو lumsumفنڈز فراہم کرے۔ محمود خان اچکزئی نے چین ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو گا۔ پی اے سی نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سٹیل مل کو چلانے کے لئے یکمشت فنڈز فراہم کرے۔ ملک کے تمام بڑے بڑے ولگ سٹیل خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ سٹیل مل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ سرامک ڈویلپمنٹ گوجرانوالہ نے 7کروڑ28لاکھ کی مشینری خریدی لیکن استعمال ہی نہیں کی اور خراب ہو گئی۔ اب یہ معاملہ نیب کے حوالے کر دیا گیا ہے نیب 25اکتوبر کو سماعت ہو گی۔ ریفرنس احتساب عدالت میں موجود ہے۔ 3افراد ملزم ہیں ٹوٹ ریفرنس318ملین روپے کے مقدمات ہیں تاہم ملزمان گرفتا رنہیں ہوئے ہیں نیب کو یہ کیس 2012ء میں پیش کیا گیا تھا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا رواج ہے کہ اربوں روپے لوٹ لو اور پھر نیب سے مک مکا کر لو 20کروڑ روپے دے کر ارب روپے لوٹ لو اور سفید کپڑے پہن کر پھر معاشرے میں شریف آدمی بن جاتا ہے۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہگوجرانوالہ ٹولز ڈائرہ ادارہ نے20گریڈ 66لاکھ روپے کی خریداری کی جس میں بھاری مالی بے ضابطگیاں کیں یہ معاملہ بھی احتساب عدالت میں ہے۔ پی اے سی نے ابزرویشن دی کہ یہ طاقتور لوگ ہیں۔ پٹواری ہوتے تو نیب گرفتار کر چکی تھی۔ 3افراد اس سکینڈل میں بھی ملوث ہیں۔ عاشق گویانگ نے کہا کہ نیب کی کارکردگی سامنے آ گئی ہے وہاں فرشتے نہیں بیٹھے ہیں پی اے سی نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزارت پیداوار کا اپنا کوئی مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں ہے۔ پی اے سی نے کہا کہ نیب کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے اور نیب کے اندر ملزمان سے ڈیل ہو رہی ہے۔ نیب کی کارکردگی کے نتیجہ میں یہ ملزمان بھی باعزت بری ہو جائیں گے۔ پی اے سی کو بتایا گیا ہے کہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ایم این اے رشید گوڈیل ن کہا کہ حکومت کے یہ ادارہ میں ریسرچ ہونی چاہیئے ورنہ ہم بہت پیچے رہ جائیں گے۔ وزارت پیداوار کا ادارہ پیکو میں بھی 132ملین کی غیر شفاف خریداری کی ۔ یہ رقم پیپلز پارٹیکے دور حکومت میں ہیر پھیر کی گئی۔ پی اے سی نے ابزرویشن دی ہے کہ حکومت کے اداروں کا جو حال جاری ہے اس سے ملک نہیں چلے گا۔ ہر ادارہ میں کرپشن نا اہلی کی انتہا ہو چکی ہے۔ اجلاس میں عذت پلیجو، محمود خان اچکزئی ، نذیر سلطان، جنید انور چوہدری، شاہدہ اختر علی، راجہ اخلاس، رشید گوڈیل اور خالد مقبول صدیقی کے علاوہ وزارت صنعت و پیداوار کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔#/s#۔( علی)