|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2016

کوئٹہ: ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے زیر اہتمام ’’پولیو ایریڈکشن انیشیٹیو‘‘ کے عنوان سے صحافیوں کیلئے منعقدہ ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوءں ڈاکٹر عبدالعزیز، سعید و دیگر نے کہا کہ سال رواں کے دوران اب تک پاکستان میں کل 15کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں بلوچستان کا ایک کیس شامل ہے ،2 دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پولیو کا خاتمہ نہ ہونا ایک المیہ ہے جبکہ امریکہ نے صرف 10 سال میں ملک کو پولیو فری کرکے دکھایا جبکہ اس وقت صرف دنیا کے تین ممالک پاکستان میں 15،افغانستان میں 8اورنائیجریا میں 3پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں پورے ملک میں ہر دفعہ ہر بچے کو پولیو کی ویکسین پلانا ایک چیلنج ہے پولیو کے خاتمے کے لئے جاری مہم پر سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا خرچہ آتا ہے ۔مقررین نے کہاکہ 24 نومبر کو ورلڈ پولیو ڈے منایا جاتا ہے اور اسی دن پولیو کے خلاف صوبے میں انسداد پولیو مہم کا انعقاد کیا جارہا ہے پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو ایک بچے سے دوسرے بچے کو لگ سکتی ہے پولیو وائرس بچے کے جسم میں داخل ہو کر معذوری یا موت کا باعث بن سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو مہم کے دوران پولیو کے 2 قطرے باقاعدگی سے پلائے جائیں تاکہ انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچایا جاسکے ۔ پولیو کے قطرے بچے کے جسم میں پولیو وائرس کے خلاف اچھی قوت مدافعت پیدا کردیتے ہیں جو جسم میں پولیو وائرس کی موجودگی کے باوجود پولیو کی بیماری سے محفوظ رہتے ہیں مگر وہ بچے جو پولیو کے قطرے باقاعدگی سے نہیں پی پاتے وہ آسانی سے پولیو جیسے مہلک مرض کا شکار ہو کر عمر بھر کے لئے اپاہج یا پھر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ مقررین نے کہا کہ مصر ، سعودی عرب ، انڈونیشیاء ، انڈیا ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے ایک سو 60 سے زائد ممالک کے علماء و رہنماؤں نے پولیو کے قطروں کو حلال قرار دیا ہے ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ویکسین کے بننے سے پہلے سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے لے کر 5 لاکھ تک لوگ پولیو کے باعث معذور ہوجاتے یا پھر موت کے منہ میں چلے جاتے تھے ۔ امریکہ میں 1920 سے لے کر 1955 کے دوران ہر سال 20 سے 35 ہزار افراد پولیو کا شکار ہوجاتے ہیں مگر 1955میں ویکسین بننے کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ 1988 میں قومی متحدہ کی جنر ل اسمبلی میں پولیو کے خاتمے کو ممکن بنانے کے لئے ایک قرار داد پاس ہوئی اس وقت ایک سو 25 ممالک میں پولیو کی مرض موجود تھی جبکہ آج صرف پاکستان ، افغانستان اور نائیجیریا میں پولیو کے وائرس موجود ہیں جن کے خاتمے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایک ملک میں تین سال تک پولیو کیس سامنے نہیں آیاتو اسے پولیو فری ملک قراردیاجائیگا، پولیو کے خاتمے کے لئے سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ ہورہے ہیں ۔ مقررین نے کہاکہ پولیو کے وائرس بہت جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ انسانوں کی نقل و حمل کے ذریعے ٹرانسفر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس موذی مرض کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اس سال پاکستان میں کل 15 پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں ایک بلوچستان کا بھی شامل ہے جو جنوری میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں رپورٹ ہوا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ اگر 2 سو بچوں میں پولیو کے وائرس موجود ہے تو اس میں صرف ایک ہی بچہ پولیو بیماری کا شکار ہوتا ہے اس لئے ہر بچے کو ہر مرتبہ پولیو کے دو قطرے باقاعدگی سے پلائے جانے چاہئیں ۔ مقررین نے کہا کہ دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم پولیو کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں جو ایک لمیہ ہے جبکہ امریکہ نے صرف 10 سال میں ملک کو پولیو فری کرکے دکھایا ۔ مقررین نے علمائے کرام ، سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے رہنماؤں ، سول سوسائٹی کے افراد ، صحافیوں اور دیگر پر زور دیاکہ وہ اس مہلک مرض کے خاتمے کے لئے بھر پور کردار ادا کریں ۔