کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادکے لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی بازیابی کے لئے ان کے اہلخانہ کی طرف سے آج کراچی پریس کلب کے باہربھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی گئی۔ بھوک ہڑتالی کیمپ میں شبیر بلوچ کی اہلیہ سمیت خاندان کے دیگر خواتین شریک رہے، اس کے علاوہ سیاسی کارکنوں اور سماجی تنظیموں کے ارکان نے بھی بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کرکے شبیر بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ سماجی تنظیموں کے کارکنوں نے پولیس اور کراچی پریس کلب کے انتظامیہ کی رویوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے متعلق خبریں شائع کرنے یا بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کو احتجاج ریکارڈ کرنے سے روکنے کی کوشش کرنا قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صحافتی ادارے یا انتظامیہ اپنے بنیادی اختیارات و حدود سے تجاوز کرکے جج بننے کی بھی کوشش کریں گے۔ تو اس کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ شبیر بلوچ کی خاندان کے مطابق پریس کلب انتظامیہ نے انہیں پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے سے منع کیا۔ ہمارے مطالبے کے باوجود کیمپ لگانے کے لئے ہمیں شیلٹر فراہم نہیں کیا جس کے بعد ہم شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ چند گھنٹوں بعد جب پریس کلب انتظامیہ نے ہمیں شلٹر فراہم کرنے کی حامی بھر لی تو پولیس کی بھاری نفری نے ہمیں کیمپ لگانے سے منع کیا اور احتجاج فوری ختم کرنے کو کہا، کسی دباؤ میں آئے بغیر ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لئے بیٹھے رہے، کیوں کہ پرامن طریقے سے احتجاج ریکارڈ کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ لیکن پولیس اور پریس کلب انتظامیہ نے ہمیں وہاں سے اُٹھ جانے کے لئے تنگ کرنے کی کوشش کی، اور بجلی کا کنکشن دینے سے بھی صاف انکار کیا۔شبیر بلوچ کی فیملی نے مطالبہ کیا کہ اگر شبیر بلوچ سے کسی قسم کا کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے، اس طرح گھر کے نوجوان فرد کو لاپتہ کرکے خفیہ اداروں نے تمام خاندان کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔