|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2016

دو ماہ بعد کوئٹہ میں ایک بار خون کی ہولی کھیلی گئی ۔اس بار 61پولیس کیڈٹس جاں بحق اور 122 زخمی ہوئے جن میں بارہ افرا د کی حالت زیادہ خراب بتائی جا تی ہے ۔ اس سے قبل کوئٹہ کے سول اسپتال کے اندر ہولناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 73افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں 52کے قریب ملک کے نامور وکلاء شامل تھے ۔ دونوں حملوں کا ہدف صرف اور صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں لاشیں بھیجی جائیں ۔ دہشت گرد اپنے ان مذموم عزائم میں کامیاب ہوئے کہ انہوں نے لاشیں بلوچستان کے ہر کونے اور ہر حصے میں پہنچائیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ حملے بلوچستان کے عوام اور ان کی واضح سوچ پر کیے گئے تاکہ بلوچستان کے عوام کو اپنے موجود سوچ سے دور یا باز رکھی جائے ۔ مقابلتاً بلوچستان کے عوام دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ دوراندیش ہیں اور صابر لوگ ہیں صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے ، ہر حال میں حالات کا مقابلہ دلیری سے کرتے ہیں ۔ حکمرانوں اور بلوچستان کے دشمنوں کو عوام الناس کی یہ ادائیں پسند نہیں اس لیے اختلاف رائے واضح نظر آتا ہے ۔ بلوچستان گزشتہ ستر سالوں سے حالت جنگ میں ہے کوئی اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے برطانوی سامراج 100سال تک بلوچستان پر قابض رہی اور اس نے قبضہ کو قائم رکھنے کے لئے بلوچستان کے ٹکڑے کیے ۔ ایک بہت بڑا حصہ ایران ’ دوسرا افغانستان اور پھر بڑے بڑے علاقے سندھ اور پنجاب کو دئیے گئے ۔ سامراجی دور سو سال تک قائم رہا اور بلوچ عوام سے کافی لوگ شہید ہوئے مگر بلوچ عوام نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ۔پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں بلوچستان میں یہ پانچواں آپریشن جو کسی نہ کسی بہانے چلایا جارہا ہے ،اس کے خاتمے یا سیاسی تصفیہ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس دوران ایک نیا عنصر اس خطے میں متعارف کرایاگیا ہے اور وہ ہے دہشت گردی ۔اس کی ابتداء پاکستان نے اپنے امریکی اتحادیوں سے مل کر کیا تاکہ روسی افواج کو افغانستان سے نکالا جائے ، اس دن یعنی پینتیس سالوں بعد بھی یہ دہشت گردی کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے ۔ بلوچستان میں لا تعداد دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں معصوم انسانوں کو صرف مسلک کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے ۔ مذہبی دہشت گردی یا ایک مخصوص مسلک کے خلاف دہشت گردی کو انقلاب ایران کے بعدوجود میں لائی گئی جو تا ہنوز جاری ہے۔ دہشت گردوں کا ایک ٹارگٹ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے ۔ اس صورت حال کا فائدہ دشمن ممالک بھر پور انداز میں اٹھا رہے ہیں ۔ سرکاری اطلاعات ہیں کہ دشمن ممالک کے جاسوس ادارے اس میں ملوث ہیں ایک سابق آئی جی ایف سی نے پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے پچیس ممالک پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ پولیس کالج کے واقعات سے متعلق سرکاری اطلاعات ہیں کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات دی جارہی تھیں ۔یہی اطلاعات گزشتہ حملے جو وسول اسپتال میں ہوا تھا، افغانستان سے ان دہشت گردوں کو مل رہی تھیں ۔ بہر حال سول اسپتال کے قتل عام میں شہید ہونے والے لواحقین اور بعض وکلاء کی رائے اس سے مختلف ہے تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اور صرف دہشت گردوں کو تلاش کرے، ان کو گرفتار کرے اور ان کے ٹھکانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ کرے ۔ زیادہ زور سہولت کاروں پر نہ دے اور اس بہانے مقامی آبادی کو زیادتی کا نشانہ نہ بنائے ۔کیونکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اُدھر مذہبی دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو ہلاک کیا، اِدھر پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اندھا دھند مقامی آبادی کے خلاف کارروائی شروع کی حالانکہ معصوم لوگوں کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومتی رہنما ء اور وزیراعظم اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی معصوم شخص کے خلاف کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اگر عوام الناس کے دل جیت لیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ قانون نافذ کرنے والوں سے تعاون نہ کریں بشرطیکہ وہ اپنا اعتبار خود قائم کریں مگر بندوق کی نوک پر یا دھونس دھمکی پر نہیں ۔ وہ سب سرکاری ملازم ہیں عوام کے آقا نہیں ،خادم ہیں ۔