|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2016

80 سالہ اسماعیل بھیا اور 70 سالہ کریم داد میں دو چیزیں سانجھی ہیں۔ ان کی گہری دوستی اور سمندر کی لہروں سے ان کا گہرا رشتہ جن پر وہ دس سال کی عمر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ لیکن اب قسمت اسماعیل بھیا کا ساتھ نہیں دے رہی۔ ان کی اپنی کشتی ٹوٹ چکی ہے، کاروبار ٹھپ ہے اور وہ اپنے دوست کی کشتی میں ماہی گیری کرتے ہیں۔
محدود علاقے میں جو مچھلیاں ہاتھ آتی ہیں، ان سے کمائی گئی رقم میں بس ایندھن، جال کی مرمت اور قرضے ہی چکائے جا سکتے ہیں۔ آپس میں چند سو روپے بانٹ کر دونوں مشکل سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں اسماعیل بھیا کا نئی کشتی لینے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ انھوں نے بتایا ‘حالات پہلے اچھے تھے جب سمندر ہمارا تھا ، اب کبھی دو سو تین سو روپے ملے گا ، کبھی نہیں ملے گا ، ہمارے بیوی بچے کو دے گا ، اب کشتی کیسے بنے گا ؟ کشتی نہیں بنے گا۔’ سورج کی مدھم ہوتی کرنوں میں دونوں دوست گنی چنی مچھلیاں اور لوبسٹر کشتی سے اتار کر مچھیروں کی واحد مارکیٹ میں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ علاقہ بھی اب گوادر بندرگاہ کی انتظامیہ کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ ماہی گیروں نے بتایا کہ ایسی دو تین مارکیٹس بند ہو چکی ہیں کیونکہ وہاں بندرگاہ سے جڑا تعمیراتی کام شروع ہو چکا ہے۔
گوادر بندرگاہ کی جگہ بڑھ رہی ہے اور ماہی گیروں کا سمندر سکڑ رہا ہے
  وہ پٹی جہاں بندرگاہ بن رہی ہے، ماہی گیروں کے لیے سونے کی کان ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں جا سکتے۔ ان مرکزی شکارگاہوں میں مچھلیوں اور لابسٹر کا ذخیرہ قدرتی طور پر موجود ہے جن سے ماہی گیری کی سالانہ آمدن کروڑوں روپے تھی۔ اب بندرگاہ کی جگہ بڑھ رہی ہے اور ماہی گیروں کا سمندر سکڑ رہا ہے۔ اس وقت صرف تین گودیاں تعمیر ہوئی ہیں جہاں بحری جہازوں کا سامان اتارا اور چڑھایا جائے گا لیکن اس طرح کی بیس گودیاں تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ماہی گیر کہاں جائیں گے؟ اسماعیل بھیا کے دوست کریم داد نے کہا ‘ہم کیا کریں ؟ لڑائی تو ان کے ساتھ نہیں کر سکتے ، وہ ہمارے جال کاٹتا ہے ، بندوقوں سے اپنے پاس سے ہٹاتا ہے ، ہم ہٹ جاتا ہے۔’ گوادر کی بندرگاہ سے جڑے ترقیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں شہر کے وہ چھوٹے ماہی گیر بری طرح پھنستے دکھائی دے رہے ہیں جن کے اپنے جال خالی ہیں۔
  گوادر وہ پٹی جہاں بندرگاہ بن رہی ہے، ماہی گیروں کے لیے سونے کی کان ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں جا سکتے
  ماہی گیری یہاں کا روایتی کام ہے جو 80 فیصد آبادی نسل در نسل صدیوں سے کرتی آ رہی ہے۔ یہاں کی تمام صنعت اور کاروبار ماہی گیری سے منسلک ہے لیکن روایتی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ساحلی علاقہ صرف بڑی مچھلیوں کا تالاب بن جائے گا اور ماہی گیر تعمیر اور ترقی کی اس لہر میں ڈوبتے نظر آ رہے ہیں۔ گوادر مید اتحاد کے ایک رہنما رسول بخش حسین کا کہنا ہے کہ ‘تبدیلی تو آ رہی ہے ترقی سے، ابھی ہم آزاد ہیں خودمختار ہیں ، اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔پھر ایک دن آ ئے گا کہ اگر کسی کو ماہی گیری کرنی ہے تو وہ بڑے تاجر کی لانچوں میں جائے اور اس کی غلامی کرے۔ یعنی اگر ترقی آ گئی تو ماہی گیر کی آزادی چلی گئی، بس یہی تبدیلی ہے ماہی گیر کے لیے۔’ انھوں نے کہا کہ یہاں آبادی کی اکثریت کو ماہی گیری کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا اور نہ ہی ان کو کوئی متبادل کام سکھایا جا رہا ہے جس کی مدد سے وہ آنے والی ترقی اور خوشحالی کا حصہ بن سکیں۔ اس حوالے سے حکومت یقین دہانیاں تو کراتی رہتی ہے جن میں نئے مواقع، جدید ٹیکنالوجی اور تربیت کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن یہ اقدامات عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتے۔ ماہی گیروں کے لیے متبادل جیٹییاں گذشتہ 12 برسوں سے تعمیر ہی ہو رہی ہیں ، مکمل نہیں ہو پائیں۔
ماہی گیر ماہی گیری یہاں کا روایتی کام ہے جو 80 فیصد آبادی نسل در نسل صدیوں سے کرتی آ رہی ہے
  گوادر کے محکمۂ فشریز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مولا بخش نے اس حوالے سے کہا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ کے کچھ مسائل ہیں۔ جتنے فنڈز مل رہے ہیں ان کے مطابق ان متبادل ذرائع پر کام جاری ہے۔ ‘فرق تو پڑا ہے ماہی گیروں پر ، ان کی بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ان کی مرکزی شکار گاہیں بندرگاہ کے علاقے میں ہوا کرتی تھیں۔ مگر جہاں ان کو وقتی طور پر نقصان ہو رہا ہے، آگے جا کر ان کو بڑی بین الاقوامی مارکیٹ کا حصہ بننے سے فائدہ اور منافع ہو گا۔’ لیکن اسماعیل بھیا جیسے چھوٹے ماہی گیروں کے پاس اپنی اگلی نسل کو اپنے ہنر کے سوا دینے کو اور کچھ بھی نہیں لیکن اب یہ خوف ان کو کھائے جا رہا ہے کہ شاید یہ میراث بھی وہ آگے منتقل نہ کر پائیں اور ماہی گیروں کی اگلی نسل کی پہنچ سے وہ ساحل سمندر جلد ہی دور ہو جائے گا جسے وہ اپنا گھر مانتے ہیں۔ بشکریہ