|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2016

کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ غیر آئینی طریقے سے کسی بھی تبدیلی کی حمایت نہیں کرینگے۔ مغربی روٹ پر کام نہ کیا گیا تو خاموش نہیں رہیں گے۔کالعدم تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائیوں نہ کی گئیں تو ملک کے حالات اس سے بھی بد تر ہوں گے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے اپنی خامیوں کو درست کرنا ہوگا۔ یہ بات انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اس موقع اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین ، صوبائی صدراصغرخان اچکزئی ، رکن صوبائی اسمبلی انجینئرزمرک خان بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صڈر عبدالغنی خلجی بھی موجود تھے ۔اسفند یار ولی خان نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب آپریشن پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں آرمی پبلک اسکول ، با چا خان یونیورسٹی، سانحہ8 اگست، مردان واقعہ اور24 اکتوبر کے سانحات میں ایک سازش کے تحت تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بنایا ہے سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان پر حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے مگرصحیح معنوں میں عملدرآمد ہو تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں اس وقت تک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا اگر ہرواقعہ کو قالین کے پیچھے چھپا لیتے ہیں تو اس سے بھی بڑا سانحہ ہو سکتا ہے سانحہ8 اگست کے واقعہ میں ملوث عناصر کو ذمہ داریاں کو سزا ملتی تویہ واقعہ پیش نہیں آتا نوجوان نسل کی تباہی قوم کی تباہی ہے اس پر بھی سیاست کی جا رہی ہے ایسے واقعات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ مجھے کوئٹہ آنے سے تین دن پہلے فون آیا اور بتایاگیاکہ کوئٹہ میں تین خودکش حملہ آور آئے ہیں جس کے دو ٹارگٹ ہیں ایک اے این پی کے26اکتوبر کا جلسہ اور دوسرا ٹارگٹ پولیس ہے یہی بات کوئٹہ میں ہماری پارٹی کی صوبائی قیادت کو بھی بتائی گئی اب سوال یہ ہے کہ جب خودکش حملہ آور کوئٹہ میں داخل ہوئے تھے تو پھر آپ نے سیکورٹی کے اقدامات کیوں نہیں کئے اس کی ذمہ داری تو حکومت اور سیکورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے جب پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ ہوا تو ہم نے شہید کیڈٹس کے سوگ اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے جلسہ اور دوسرے پروگرام ملتوی کئے کیونکہ یہ پشتون روایات نہیں ہیں کہ ایک طرف جنازے پڑے ہوں اور دوسری طرف زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں ہم آج بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ چھٹی پر جانیوالے کیڈٹس کو کیوں بلایاگیا اور کس نے بلایا ان سے باز پرس ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سی پیک کے خلاف احتجاجی جلسہ کر رہا تھا ہم سی پیک کے مخالف نہیں حقیقت میں یہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے ہمارے احتجاج اور مطالبہ ہے کہ مغربی روٹ کے مطابق جو وعدے وزیراعظم نے کئے ہیں ان کو پورا کیا جائے بلوچ لیڈر شپ بھی کمپیوژن کا شکار ہے کہ گوادر کا مستقبل کیا ہے اتنے بڑے منصوبے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے سی پیک پر انڈسٹریل زون کا لسٹ جاری کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ پشتونوں اوربلوچوں کا کتنا حصہ ہے پنجاب کو ترقی دی جائے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارے جو تحفظات اور خدشات ہے ان کو فوری طور پر ختم کیا جائے ۔ یہ بات بھی تومدنظررکھنی چاہئے کہ اگر گوادر دوسرا کراچی بنتاہے تو گوادر اور بلوچستان کی آباد ی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے ۔ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ دراصل آصف زرداری کی اسکیم تھی جس کاپہلا نام کاشغر گوادر اکنامک زون تھا مگر اب اس کا نام تبدیل کرکے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور رکھ دیاگیاپہلے والے منصوبے میں صرف مغربی روٹ ہی تھا مگر اب نئے منصوبے میں مغربی روٹ کو نکال دیاگیاہے ہم یہ نہیں کہتے کہ پنجاب کو ترقی نہ دیں آپ پنجاب کو ضرور ترقی دیں مگر ہمارا حصہ بھی تو دے دیں چائنا نے اپنے شدت پسندی سے متاثرہ اورپسماندہ علاقوں کیلئے یہ منصوبہ شروع کیا تو ہمیں بھی چائنا ہی کافلسفہ اختیار کرنا چاہئے۔اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ کوئی یہ نہ سوچے کہ پشتونوں کا خون بہانے اورسی پیک منصوبے میں پشتونوں کو نظرانداز کرنے اور اس سے مغربی روٹ نکالنے پر اے این پی خاموش رہے گی وہ ہمیں کمزور نہ سمجھیں اور ایک بات سب سن لیں کہ ہم اتنے بھی کمزور اور بے بس نہیں ہم سے جہاں تک ہوسکاہم مزاحمت اور احتجاج کریں گے اورخاموش نہیں رہیں گے انہوں نے کہاکہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے اے این پی اور پیپلزپارٹی سمیت پانچ چھ جماعتوں کے تین تین لوگ چائنا گئے ہیں جب وہ آئینگے تو پھرمعلوم ہوگا کہ وہاں ان کی چائنا حکام سے کیا بات ہوئی۔اے این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جس ڈگر پر ہم اور ملک کے حالات کے جارہے ہیں یقیناًمجھے بہت خوف ہے کہ اگر اب بھی دہشتگردی کے واقعات میں ملوث عناصر اور ان کے ذہن سازوں کی نشاندہی کرکے ان کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی تو ہمارا یہ خطہ بھی شام اور عراق جیسا بن جائیگا۔ویسے تو آج بھی یہاں کسی کی جان محفوظ نہیں مگر جب حالات عراق اور شامل جیسے بن جائیں تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کی جان محفوظ ہو۔ دہشتگردی کے واقعات پر سیاست نہیں کرنی چاہئے اس کیلئے اتحاد کی ضرورت ہے اگر یہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنے والوں کی جانب سے اسلام آباد کو بند کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیاہے جو کہ خوش آئند ہے اے این پی اور پیپلزپارٹی دھرنے اور نہ ہی نوازشریف کو سپورٹ کررہے ہیں بلکہ ہم جمہوریت اور پارلیمنٹ کو سپورٹ کررہے ہیں ہماری اس سپورٹ کو لوگ وزیراعظم نوازشریف کی سپورٹ نہ سمجھیں ہم آج بھی جمہوریت اور پارلیمنٹ کو سپورٹ کرتے ہیں اور کسی بھی غیر جمہوری وغیر آئینی طریقے سے تبدیلی کی ہم مخالفت کرینگے ۔اے این پی کے سربراہ نے مزید کہا کہ ہم سب کیساتھ اتحاد اور اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور بلوچوں کیساتھ تو ہمارے اب بھی اچھے تعلقات اور رابطے ہیں میں جتنی عزت ولی خان کو دیتا تھا وہی عزت میں سردارعطاء اللہ مینگل اورغوث بخش بزنجو کو بھی دیتا تھا ،سرداراخترمینگل پنجگور میں ہونے کے باعث ان سے ملاقات نہیں ہوسکی لیکن ان کے ساتھ ہماری پارٹی کی رابطے اور اچھے تعلقات اب بھی قائم ہیں ۔