آخری اطلاعات آنے تک پولیس ٹریننگ کالج کے اندوہناک واقعہ میں 62افراد ہلاک اور 120سے زائد زخمی ہوئے ۔ بیس کے قریب ایسے زخمی ہیں جن کی حالت خراب ہے اور وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں جہاں 24گھنٹے ان کی تیمارداری ہورہی ہے یہ تمام زیر تربیت اہلکار غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دوردراز علاقوں کے رہائشی ہیں جہاں پر ریاست پاکستان نے ان کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی ہیں۔ چند ایک کا تعلق شہری اور متوسط گھرانوں سے ہے ۔ اس بڑی تعداد میں ہلاکتیں ان تمام متاثرہ خاندانوں کے تباہی کا باعث بن گئی ہیں اکثر شہید پولیس اہلکار اپنے پورے خاندان کاواحد سہارا اور امید تھے ان سب کی شہادتوں کے بعد ان متاثرہ خاندانوں میں غم سوگ کے علاوہ مایوسی کا عالم ہوگا کیونکہ ان غریب ترین خاندانوں کے یہ شہداء واحد سہارا اور کفیل تھے ۔اس سے کوئی بحث نہیں کہ کیا ہوا، کیوں ہوا، کسی کی غلطی تھی ، ان اہلکاروں کو دوبارہ کیوں طلب کیا گیا تھا؟ سب کو دوابرہ یکجا کرنے کے بعد ہی یہ واقعہ پیش آیا یہاں سوال یہ ہے کہ ان متاثرہ خاندانوں کا کیا بنے گا۔ یہ ریاست پاکستان اور وفاق پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ان متاثرہ خاندانوں کو تمام ضروریات اور خصوصاً معاش، صحت اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرے پہلے توہر ایک کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کے گرانٹ کا وفاقی حکومت اعلان کرے اور صوبائی حکومت ان متاثرہ خاندانوں کے بچوں کے تعلیم اور صحت کی ضروریات پوری کرے۔ ہو سکے تو ان کے بدلے خاندان کے دوسرے افراد کو ملازمتیں فراہم کی جائیں ۔ حکومت ان کے بچوں کی تمام تعلیمی اخراجات اٹھائے اور ان کے رہائش اور خوراک کا انتظام کرے خصوصاًحکومت کے زیر سرپرستی چلنے والے بڑے تعلیمی ادارں میں جن کا تعلیمی ریکارڈ تابناک ہے ۔ہم ان کالموں میں پہلے ہی یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ صوبے بھر میں ہر تحصیل اور سب تحصیل میں کم سے کم ایک بڑا رہائشی درسگاہ بنایا جائے جہاں پر پہلی جماعت سے لے کر 12جماعت تک تعلیم ‘ رہائش ‘ کھانا پینا اور دوسرے اخراجات مفت ہوں تاکہ لوگ پرائمری اسکول کے بعد پڑھائی نہ چھوڑیں ۔ اگر ایسے رہائشی تعلیمی ادارے ہیں تو ان بچوں کو وہاں داخل کیاجائے ۔