|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2016

گوادر کی ثمینہ بخش کے بچے اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کی آمد کا انتظار کرتے رہ گئے اور اپنی والدہ کو بھی کھو بیٹھے۔ ایک دن قبل ان کی بظاہر ہنستی بولتی ثمینہ ، بچے کی پیدائش کے عمل کے دوران انتقال کر گئیں۔ ثمینہ کی بڑی بیٹی دس سالہ عاصمہ ان کی یاد میں آنسو تک نہیں بہا پائیں کیونکہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اب انھیں ماں کا کردار نبھانا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ثمینہ کو بروقت طبی امداد مل جاتی تو شاید وہ اپنے بچوں کو بڑا ہوتے دیکھنے کے لیے خود حیات ہوتیں لیکن جب پہلی دفعہ ان کو ڈاکٹر میسر آیا وہ ان کی موت کی تصدیق کرنے کے لیے تھا۔ ان کی نند عبیزہ بخش نے بتایا کہ ثمینہ بالکل صحت مند تھیں ، لیکن دوران حمل انھیں آپریشن کی ضرورت پڑی جس کے لیے کوئی ڈاکٹر دستیاب نہیں تھا۔ عبیزہ نے کہا ‘وہ رات کو اچھی بھلی ہمارے ساتھ باتیں کرتی رہی، طبیعت خراب ہونے پر ہم اسے ہسپتال لے کر گئے۔ وہاں چھوٹی ڈاکٹر نے کہا ماں اور بچہ ٹھیک ہیں لیکن ہم مجبور ہیں، آپریشن کون کرے؟ میری بھابی نے میرے ہاتھوں میں ہی دم توڑ دیا۔’ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بندرگاہ، نئی سڑکوں اور ریئل اسٹیٹ کی شکل میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے لیکن کیا حکومت مستقبل کے ‘میگا سٹی’ کے شہریوں میں بھی کوئی دلچسپی رکھتی ہے؟ بنیادی مسائل میں صحت کا نظام بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آ رہا۔ گوادر ڈسٹرکٹ ہسپتال شہر کا واحد کام کرنے والا ہسپتال ہے اور ڈاکٹر ثمینہ یہاں کی واحد خاتون ڈاکٹر ہیں۔ روزانہ تقریباً سو مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے وہ روز تھکاوٹ سے لڑتی ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے لڑ نہیں پاتی کہ پورے شہر میں ایک بھی ماہر گائناکولوجسٹ نہیں ہے۔ حاملہ خواتین کو علاج کے لیے ہزاروں میل دور کراچی بھیجنا پڑتا ہے اور فاصلہ زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر ثمینہ کی اپنی 18 سالہ خالہ زاد بہن حمل کے دوران پیچیدگیوں میں سہولیات اور گائناکولوجسٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے سامنے ہی دنیا سے چل بسیں۔ انھوں نے کہا ‘ہمارے پاس آپریشن تھیٹر ہے لیکن انیستھیالوجسٹ نہیں، میٹرنٹی وارڈ ہے لیکن گائناکالوجسٹ نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔’ گوادر کے ہسپتال میں روزانہ خواتین کی لمبی قطاروں سے ان کی طبی ضروریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ نرسنگ عملے اور ڈاکٹروں کی واضح کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے مقامی ڈاکٹروں کے لیے کوئی خاطر خواہ کوٹہ نہیں رکھا۔ باہر سے آنے والے ڈاکٹر زیادہ دیر تک ایسے مشکل حالات میں کام نہیں کر پاتے جہاں صحت اور طبی سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ ہی غائب ہے۔ اب بھی ڈاکٹروں کی نصف سے زیادہ نشستیں خالی پڑی ہیں اور مریضوں کی قطاریں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ زنانہ وارڈ میں چند ماہ قبل چھت کا ایک حصہ مریضہ پر ہی گر گیا تھا۔ وسائل کی اس حد تک کمی ہے کہ انتظامیہ نے اس چھوٹے سے حصے کو خالی کرا دیا لیکن بقیہ وارڈ ویسے ہی چل رہا ہے۔ ہسپتالوں کے چکر لگاتے مجبور لوگ گوادر کے اس تضاد کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کہ جہاں ایک طرف میگا سٹی کئی سال سے تعمیر ہو رہا ہے وہاں اس کے شہری اب تک بنیادی طبی سہولیات کے لیے ہی ترستے دکھائی دیتے ہیں۔ بشکریہ صبا اعتزاز اور بی بی سی اردو