|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2016

توقع کے مطابق حکومت نے طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور دو دنوں تک پولیس اور سیاسی مخالفین کے درمیان اسلام آباد اور راولپنڈی میں جھڑپیں ہوئیں ۔ پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر پولیس اور ایف سی نے دھاوا بول دیا اورکنونشن نہیں ہونے دیا ۔ اس سے قبل احاطے کو سیل کردیااور مالکان کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ وہ یوتھ کنونشن نہ ہونے دیں بلکہ پورے علاقے کو سیل کردیا گیا تھا۔ اس دران پولیس نے بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی موجودگی میں کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی اور اس طرح سے دوسرے دن کے زیادہ وسیع تر احتجاج کے لئے میدان ہموار کی ۔ اگر چار دیواری کے اندر پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن کو معمول کی سیاسی سرگرمی سمجھ کر ہونے دیا جاتا تو کوئی آسمان نہیں گرتا ۔ لوگ معمول کی طرح جو شیلی تقاریر سن کر مطمئن ہو کر اپنے گھروں کو واپس جاتے۔ اگر پی ٹی آئی والے بھی دفعہ 144کے نفاذ کے بعد ڈپٹی کمشنر سے باقاعدہ اجازت لیتے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا ایسے معاملات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چائیے ۔ اجازت لینے سے پی ٹی آئی کا فائدہ ہوتا اور وہ زیادہ بہتر طورپر اپنے احتجاج کے لئے رائے عامہ ہموار کرسکتے تھے۔ ان سب باتوں کے علاوہ موجودہ حالات کا ذمہ دار صرف حکومت ہے ۔ گزشتہ کئی دنوں سے حکمرانوں کا یہ شوق واضح طورپر نظر آرہا تھا کہ اس بار طاقت کا مظاہرہ ضرور کرنا چائیے ، جلد کرنا چائیے اور دو نومبر سے قبل کرنا چائیے۔ اس لیے راولپنڈی اور بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کے باہر طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیمرہ کی آنکھ نے دنیا کو دکھایا۔ اس سے صرف اور صرف حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ اس کے بعد بعض وزراء اور مسلم لیگی رہنماؤں نے پریس سے بات چیت کے دوران قابل اعتراض زبان استعمال کیا جو حکمران اور حکومتی رہنماؤں کے شایان شان نہیں ۔دفعہ 144 کے تحت پولیس کارروائی تھی اس کو سیاسی تنازعہ کا حصہ نہ بناتے ۔ حکومت کے سخت طرز عمل سے ملک میں تلخی میں اضافہ ہوگیا ہے جو کسی طرح بھی حکومت وقت کے لئے خوش آئند عمل نہیں ہے ۔ اب چونکہ حکومت حزب اختلاف کی ایک یا ایک سے زائد جماعتوں پر حملہ آور ہو چکی ہے ۔ اور اس نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کرہی دیا ہے گو اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہوگی اور ملک کے حکمران ہونگے۔اس بہانے کئی ایک پارٹیاں حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہو سکتی ہیں ۔اگر زیادہ سیاسی اور تربیت یافتہ احتجاجی کارکن بھی میدان میں اتر گئے تو نتائج زیادہ خطر ناک ہوسکتے ہیں اگر یہ احتجاج ملک کے طول و عرض میں صرف اسی وجہ سے پھیل گیا کہ حکومت اور حکمرانوں نے صبرکا دامن چھوڑ دیا تھا تو اس سے حکومت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اشارے یہ ہیں کہ پی پی پی ’ جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک احتجاج میں شامل ہونے کے لئے پرتول رہی ہیں ۔ اگر دو بڑی جماعتوں یعنی پی پی پی اور جماعت اسلامی نے احتجاج میں حصہ لیا تو عوام الناس یہ سمجھ لے گی کہ حکومت صرف دنوں کی مہمان ہے کیونکہ ان دو پارٹیوں نے فوجی آمریتوں سے ٹکر لی اور تمام فوجی آمریتوں کو پاش پاش کردیا ۔ اس وجہ سے ان کو حکومت گرانے کا وسیع تجربہ ہے ۔ یہ عوام کی منظم ترین جماعتیں ہیں یہ بات الگ ہے کہ ان جماعتوں کو صرف اور صرف دولت کے زور پر انتخابات میں شکست دی جاتی رہی ہے اور دولت ہی کی بنیاد پر ان کو آئندہ بھی انتخابات میں شکست ہوگی ۔ مگر احتجاج کے معاملے میں یہ سابق نیشنل عوامی پارٹی کے ہم پلہ ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ہزاروں کارکن جیلوں میں رہے ۔ غفار خان سے لے کر غوث بخش بزنجو تک بیس بیس سالوں تک جیلوں میں رہے۔ جنرل ضیاء کے پورے دور میں اپنے گھروں میں نظر بند رہے خصوصاً ایم آر ڈی تحریک کے بعد ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی مقبولیت تیزی سے کھوتے جارہے ہیں مقامی اور سیاسی تغیر کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکمرانوں نے ملک کو دنیاکی قوموں سے الگ تھلگ کردیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے وزیراعظم نے کرغزستان کا دورہ صرف اس لیے موخر کیا ہے کہ وہ ملک سیاسی بحران کا شکار ہے وہاں کوئی حکومت نہیں ہے نواز شریف وہاں جا کر کیا کریں گے۔ نواز شریف ہمیشہ بیرونی دوروں کو ملک سے اور ذمہ داریوں سے فراریت کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں اس بار ایسا نہ ہو سکا اب ان کو ملک ہی میں رہنا پڑے گا یہ ان کی مجبوری بن گئی کہ کرغزستان میں سیاسی بحران ہے ۔