|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2016

پاکستان ایک وفاق ہے اور وفاقی اکائیوں نے رضا کارانہ طورپر اس کو تشکیل دیا تھا اس لیے وفاق سے زیادہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ آئینی اور قانونی اہمیت حاصل ہے ۔پاکستان کے رہنماؤں کی اپیل کے بعد ہی بنگال ، بلوچستان ، سندھ، پنجاب اور کے پی کے نے پاکستان میں رضا کارانہ طورپر شمولیت کا اعلان کیا تھا ۔ ان پر کوئی زور یا زبردستی نہیں تھی البتہ برطانوی آقاؤں کی بھی یہی مرضی تھی کہ پاکستان بنے اور یہ علاقے اس میں شامل ہوں ۔ اس لیے پاکستان انہی اکائیوں کے اتحاد کا نام ہے ۔ پاکستان کے معماروں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ملک میں تمام صوبے ’’ آزاد اور خودمختار‘‘ ہوں گے یعنی ملک کے اندر رہتے ہوئے آزاد ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں وفاق اور وفاق کے ادارے ان کے خلاف نہ سازش کریں گے اور نہ ہی زور آزمائی ’ اس کی گارنٹی پاکستان کے معماروں نے پاکستان بناتے وقت دی تھی ۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں ہی سیاستدانوں سے نوکر شاہی نے اقتدار چھین لیا ۔جس دن ملک غلام محمد گورنر جنرل بنائے گئے اسی دن سے سیاسی رہنماؤں بلکہ پاکستان کے معماروں کی حکمرانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئی اور آج تک افسر شاہی اس ملک میں حقیقی حکمران ہے ۔ اس لیے نو کر شاہی نے سازش کی اور بنگال کی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے’’ برابری‘‘ کا فارمولا رائج کیا اور مغربی پاکستان میں تاریخی اور قومی صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ بنایا گیا۔ جب جنرل یحییٰ خان کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ بنگال پر کسی طرح بھی حکمرانی نہیں کر سکتے تو وہاں فوجی کارروائی کرکے بھارت کی سرپرستی میں بنگال کو ایک الگ ملک بنایا ۔ بنگال کو الگ کرنے کے بعد ون یونٹ کی ضرورت نہیں تھی اس لیے ان تاریخی اور قومی صوبوں کو بحال کردیا گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ صوبوں کے انتظامی اور دیگر معاملات میں زبردست مداخلت کا نظام بھی بنادیا گیا۔ اب صوبے صرف نام کے رہ گئے ہیں اور صوبوں میں وفاق اور وفاقی اداروں کی عمل داری ہے ۔ ان میں نیب اور ایف آئی اے بھی شامل ہیں ۔ نیب سے وفاقی اکائیوں کو بہت زیادہ شکایات ہیں ۔ اس سے تنگ آ کر کے پی کے نے اپنا متوازی احتساب کمیشن بنا ڈالا اور نیب کی ساکھ کو کے پی کے میں شدید نقصان پہنچا۔ سندھ اور بلوچستان کی خوفزدہ حکومتیں یہ کام نہ کر سکیں اور نہ ہی کرنے کی ہمت اورنیت ہے ۔ اس لیے نیب ایک طاقت ور ادارہ ابھر کر سامنے آیا ہے خصوصاً دو چھوٹے صوبوں میں۔چونکہ پنجاب میں کوئی کرپشن نہیں ہے اس لیے وہاں یہ نظر نہیں آتی اور تاحکم ثانی نیب پنجاب میں نظر نہیں آئے گی۔ اس کا زور اور دبدبہ دو چھوٹے صوبوں سندھ اور بلوچستان میں ہی نظر آتا ہے جہاں ہر فرد ہر افسر ہر سیاستدان کرپٹ ہے اور قابل گردن زدنی ہے ۔ اسی طرح ایف آئی اے بھی سندھ اور بلوچستان میں کارروائیاں کرتی نظر آتی ہے ، ان کی کارگردگی پنجاب میں زیرو ہے ،کم سے کم عوام الناس کے نظروں سے اوجھل ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاق دونوں ادارے ملکی اتحاد اور اتفاق کی خاطر خود ختم کرے اور سندھ اور بلوچستان کو یہ موقع دے بلکہ ہدایات دے کہ وہ صوبائی احتساب بیورو قائم کریں اورکرپشن کے تمام مقدمات اور واقعات پر کارروائی کریں ۔ اسی طرح ایف آئی اے کے تمام اختیارات دوبارہ پولیس کو دئیے جائیں جیسے ایف آئی اے کے قیام سے پہلے تھا ۔ صوبائی اداروں کو یہ تمام ذمہ داریاں سونپی جائیں کہ وہ صوبائی اور وفاقی قوانین پر یکساں عمل داری کو یقینی بنائیں۔ نیب کے خلاف سپریم کورٹ کا اتنا بڑا فیصلہ آنے کے بعد اس کے قیام اور کام کرنے کا جواز نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے نیب کے خلاف تاریخی فیصلہ دے دیا ہے اس لیے اس کی جگہ صوبوں کو اپنے اپنے احتساب کمیشن بنانے اور ان کواپنے ماحول اور حالات کے تحت کام کے موقع فراہم کیے جائیں۔ نیب کے خاتمہ کے بعد کم سے کم ملک میں وفاقی اداروں پر بد اعتمادی میں کمی آئے گی ۔