گوادر مستقبل کا عظیم الشان بندر گاہ بن رہا ہے ۔ غالباً یہ خطے کی سب سے بڑی بندر گاہ ہوگی جس سے پورے خطے کو فائدہ حاصل ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے پاس وہ وژن نہیں ہے جو وہ مستقبل کے گوادر کو ابھی سے دیکھ سکیں ۔ گوادر اتنی بڑی بندر گاہ ہوگی جو موجود ہ چاہ بہار کی بندر گاہ کو ایک ذیلی پورٹ کے طورپر استعمال کرے گی ۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر حکومت اس کا انتظام بلوچستان کی حکومت کے حوالے کرے اور بین الاقوامی تجارت پر ناروا پابندیاں عائد نہ کرتا جائے تو گوادر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا اور پورے خطے کی قسمت بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کرے گا ۔ بین الاقوامی ترقیاتی ادارے دوڑ کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں گے ۔ ابھی تک سوائے چین کے کسی بھی سرمایہ کار خواہ وہ ملکی ہو یا غیر ملکی ’ گوادر میں ایک روپے کی سرمایہ کاری نہیں کررہا ۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے ۔ ادھر گوادر کے پڑوس چاہ بہار میں بیرونی ممالک پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہے ہیں چاہ بہار گوادر سے 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں بھی گوادر کی طرح صرف اور صرف بلوچ رہتے ہیں دوسرے لوگ نہ گوادر میں رہتے ہیں اور نہ ہی چاہ بہار میں ۔وہاں سرمایہ کاری کا ماحول اتنا دلکش ہے کہ ترقی یافتہ ممالک وہاں پر پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں ۔ ان میں دواہم ترین اسکیمیں ہیں جن کا تعلق اسٹیل کی صنعت سے ہے ۔ جاپان بیس لاکھ ٹن پیداواری صلاحیت کا اسٹیل ملز لگا رہا ہے جبکہ جنوبی کوریا سولہ لاکھ ’ وہ بھی چاہ بہار کے صنعتی علاقے کے بلوچستان میں ’ جبکہ حکومت پاکستان نے کراچی میں قائم اسٹیل مل کی نیلامی کا اعلان کیا ہے جس کی پیداواری صلاحیت صرف ایک لاکھ ٹن ہے ۔ دوسرے الفاظ میں بلوچستان کے لوہے کے وسیع ذخائر کے باوجود حکومت پاکستان ایک لاکھ ٹن سالانہ پیداواری صلاحیت کا سٹیل مل چلانے سے قاصر ہے ۔ اگر سرمایہ کاری کا ماحول ساز گار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ بیرونی سرمایہ کار اور ممالک گوادر پر 200ارب ڈالرکی سرمایہ کاری نہ کریں۔ مسئلہ حکومت پاکستان پر اعتماد کے فقدان کا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں ترکمانستان سے ایک بڑی گیس پائپ لائن کو گوادر تک لانا تھا ایک امریکی کمپنی نے اپنے پاکستان میں سارے اثاثے فروخت کردئیے اور ترکمان گیس پائپ لائن پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ۔ یہ پائپ لائن ترکمانستان ’ افغانستان ’ بلوچستان (گوادر)سے ہوتی ہوئی سندھ کے راستے بھارت کے دو صنعتی طورپر ترقی یافتہ ریاستوں گجرات اور ممبئی پہنچناتھا۔ حکومت پاکستان اور اس کی پراکسی طالبان نے اس منصوبے کو ناکام بنایا اور امریکیوں کوایسے مطالبات پیش کیے جو وہ پور ے نہیں کر سکتے تھے ۔ مقصد امریکا کو اس پروجیکٹ سے بے دخل کرنا تھا ۔ اسی وجہ سے ایشیائی ترقیاتی بنک نے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کے لئے بارہ ارب ڈالر کی ایک خطیر رقم مختص کی جس کا مقصد گوادر کو ریل اور سڑک کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک سے ملانا تھا ترکمان گیس پائپ لائن کے بعد ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنی وہ اسکیم سرد خانے میں ڈال دی ۔ چونکہ حکومت پاکستان کو بین الاقوامی اعتماد کے فقدان کا سامنا ہے اس لیے گوادر کو فوری طورپر حکومت بلوچستان کے حوالے کیا جائے اور حکومت بلوچستان بین لااقوامی مالیاتی اداروں ’ ترقیاتی بنک اور دوست ممالک سے براہ راست مذاکرت کرے اور خصوصاً ایشیائی ترقیاتی بنک سے مذاکرات کرکے بارہ ارب ڈالر کی امدادی سرمایہ کاری بحال کرنے کی کوشش کرے تاکہ گوادر کو ریل اور سڑک کے ذریعے تمام وسط ایشیائی ممالک اور روس سے ملا دیا جائے۔ اس طرح یورپی ممالک نے جہاز سازی کی صنعت گوادر بندر گاہ کے علاقے میں قائم کرنے کی پیش کش کی تھی اور وہ پیش کش گزشتہ دس سالوں سے وزارت منصوبہ بندی کے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے اس پر بھی حکومت بلوچستان کو براہ راست مذاکرات کرنے کی اجازت دی جائے ۔ گوادر کی بندر گاہ کے مقابلے میں پورا سی پیک صرف پنجاب کے لیے چند ایک منصوبوں کا نام ہے ۔ جو چین کی براہ راست سرمایہ کاری سے متعلق ہیں جب یہ منصوبے مکمل ہوں گے اور منافع کمائیں گے چینی سرمایہ کار اربوں ڈالر سالانہ منافع اپنے ملک واپس لے جائیں گے تو اس وقت حکومت پاکستان کے معاشی منصوبہ سازوں کو یہ معلوم ہوگا ۔ دوسری جانب گوادر بندر گاہ کے پاس یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ صرف اور صرف راہداری سے سالانہ دس ارب ڈالر کمائے اور اس کو ملک کی ترقی پر خرچ کرے ۔