|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے گڈانی میں ساحل سمندر پر کھڑے بحری جہاز میں آگ بھڑک اٹھی، حادثے میں 14مزدور جاں بحق جبکہ60سے زائد زخمی ہوگئے۔متعدد مزدور لاپتہ یا بحری جہاز میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جہاز میں تیل کی موجودگی کے باعث کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ امدادی سرگرمیوں میں پاک بحریہ ، کوسٹ گارڈ اور ایدھی کے رضارکار وں نے حصہ لیا لیکن اندھیرے کے بعد آپریشن روک دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق لسبیلہ کے ساحلی علاقے گڈانی میں ساحل سمندر میں شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر54میں کھڑے بحری جہاز میں اس وقت آگ لگی جب مزدور مذکورہ بحری جہاز کو توڑ کر سکریپ بنانے کا کام کررہے تھے۔ جہاز توڑنے کا کام گیس سلنڈروں کے ذریعے کیا جارہا تھا اس دوران اچانک گیس آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد گیس سلنڈر پھٹنے لگے۔ عینی شاہدین کے مطابق جہاز میں دس فٹ تک تیل جمع تھا کے باعث آگ تیزی سے پھیلی اور اس کا آئل ٹینکر بھی دھماکے سے پھٹ گیا۔ آگ کے شعلے کئی فٹ بلند تھے ۔اس دوران وقفے وقفے سے ویلڈنگ سلنڈر دھماکوں سے پھٹتے رہے ۔کئی مزدوروں نے بحری جہاز سے سمندر کی طرف چھلانگیں مار کر جانیں بچائیں۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں دنیا بھر سے ہر سال درجنوں ایسے بحری جہاز آتے ہیں جو اپنی عمر پوری کرنے کے بعد ناکارہ ہوچکے تھے ۔ شپ بریکنگ یارڈ میں ان جہازوں کو توڑ کر سکریپ بنانے کا کام کیا جاتا ہے ۔گڈانی شپ بریکنگ کے ہر یارڈ میں تین بحری جہاز بیک وقت کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ ہر جہاز پر دو سو سے تین سو مزدور ٹھیکیدار کے ساتھ ڈیلی ویجز کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ متاثرہ بحری جہاز 12روز قبل گڈانی کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تھا ۔اس کا 26رکنی عملہ واپس چلا گیا تھا ۔ جہاز کو توڑنے کا کام پانچ روز قبل شروع کیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق بحری جہاز توڑنے کا کام تیل کی صفائی کے بغیر ہی شروع کردیا گیا تھا ۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں اس سے قبل بھی کئی حادثات ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں حفاظتی انتظامات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ متاثرہ بحری جہاز عبدالغفور نامی شخص کی ملکیت بتایا جاتا ہے جس کے ایک اور بحری جہاز میں تین سال قبل بھی آگ لگنے سے پانچ مزدور جاں بحق ہوئے تھے۔ متعلقہ ٹھیکیدار کے دفتر کا عملہ دفتر کو تالہ لگا کر فرار ہوگیا ہے اس لئے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حادثے کے وقت بحری جہاز میں کتنے مزدور موجود تھے۔ تاہم پروانشل ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل اسلم ترین نے بتایا کہ بحری جہاز پر موجود مزدوروں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سو سے زائد مزدور موجود تھے جن میں سے14افراد کی موت ہوچکی ہے جبکہ59افراد کو زخمی حالت میں نکال کر گڈانی، حب اور کراچی کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق سول اسپتال کراچی کے برن وارڈ میں داخل 80فیصد مزدوروں کی حالت تشویشناک ہے انہیں جھلسنے کے باعث شدید زخم لگے ہیں۔ گڈانی اور لسبیلہ میں تربیت یافتہ ریسکیو اہلکاروں ، ایمبولنسز اورفائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی کمی کے باعث بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے اسلم ترین کے مطابق پی ڈی ایم اے کے پاس آگ بجھانے کے آلات نہیں ہے جس کی وجہ سے پی ڈی ایم اے سندھ، پاک بحریہ ، کوسٹ کارڈ سے رابطہ کرکے امدادی سرگرمیوں میں مدد طلب کی گئی۔ امدادی سرگرمیوں میں پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں جبکہ کوسٹ گارڈ نے60اہلکاروں پر مشتمل ریسکیو ٹیم فائر بریگیڈ اور ایمبولنسزکے ہمراہ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح ایدھی کے رضا کار اور ضلعی انتظامیہ کی ٹیم بھی امدادی سرگرمیوں مصروف ہے۔ کراچی کے علاقے ماڑی پور سے بھی فائر بریگیڈ کے اہلکار آگ بجھانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ آگ کی شدت زیادہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق رات کے اندھیرے کے باعث نیوی کے ہیلی کاپٹرز واپس چلے گئے ہیں تاہم فائر بریگیڈ آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حادثے میں زخمی ہونے والوں میں 45سالہ بادشاہ ولی، 24سالہ گل امین، 25سالہ محمد بچو،30سالہ مشتاق، 20سالہ باچا،25سالہ میر حسن،20سالہ نور حسن،20سالہ امیر ،45سالہ بادشا علی،28سالہ شاہد،18سالہ خدائے داد،،50سالہ محمد اعجاز، 30سالہ عظیم،30سالہ ساحل، 22سالہ محمد اسحاق،28سالہ اصغر،30سالہ عمران،25سالہ اشفاق، 28سالہ اختر، 30سالہ ذبیح اللہ، 35سالہ محمد امین،40سالہ عالم خان،18سالہ عباس، 28سالہ ثناء اللہ،25سالہ ممتاز،18سالہ منظور ،25سالہ سیف اللہ شامل ہیں۔ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ ذوالفقار علی شاہ کے مطابق جہاز میں خام تیل ہونے کی وجہ سے آگ کی شدت کافی ہے جس کی وجہ سے اس پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹروں نے بھی آگ پر قابو پانے کیلئے کوششوں میں حصہ لیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق اندھیرے کے باعث ریسکیو آپریشن روک لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ آتشزدگی سے متاثرہ جہاز کا ٹھیکیدار فرار ہوگیا ہے جبکہ ایک کارندے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 130پلاٹس /یارڈز پر قائم گڈانی شپ بریکنگ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا اور کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہے۔ 1980ء کی دہائی میں یہاں30ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے تھے تاہم اس وقت تقریباً دس ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ جہاز توڑنے کی اس صنعت سے ہر سال 10لاکھ ٹن سے زائد اسٹیل حاصل ہوتا ہے۔ ’’شپ بریکنگ مزدور یونین‘‘ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مالکان اور حکومت کو ریونیو کی مد میں اربوں روپے فراہم کرنے والی اس صنععت میں مزدور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں۔ہر جہاز پر انتہائی اونچائی پر کام کرنے والے مزدور آپ کو حفاظتی جنگلے اور (سیفٹی ہارنیس) حفاظتی رسی کے بغیر نظر آئیں گے۔ ناکارہ جہازوں میں تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا اور کاٹنا ماہر گیس فٹر کا کام ہے کیوں کہ اگر انہیں بد احتیاطی سے کھولا یا کاٹا جائے دھماکے کے ساتھ آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے واقعات یہاں آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور صرف اس وجہ سے اب تک درجنوں مزدور اپاہج اور کئی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے نیچے اترنے کے لیے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں ہوتا۔ مزدور یونین رہنماؤں کے مطابق شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کو ذاتی حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے، جب کہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک کیمیکلز کی وجہ سے مزدور دمے اور جلدی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ گلاس وول فوم کی طرح کا ریشے دار کیمیکل ہے۔ یہ اگر جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو شدید خارش ہوتی ہے۔ سانس کے ساتھ یہ پھیپھڑوں میں جا کر کھانسی اور دمے میں مبتلاکر دیتا ہے۔ ہمارا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ مزدوروں کو کام کرنے کے لیے ذاتی حفاظتی آلات اور کسی حادثے کی صورت میں فوری طبی امداد فراہم کی جائے، لیکن انتظامیہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتی۔