حکومتی حلقوں نے روزنامہ’’ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس‘‘ میں جعلی ادویات کی عام فروخت کے خلاف خبریں چھپنے کے بعد ایک آدھ دن مہم چلائی اور درجنوں میڈیکل اسٹورز کو سیل کردیا جہاں سے جعلی ادویات یا زائد المیعاد ادویات برآمد ہوئی تھیں ۔ چند دن کے بعد اس مہم کی رفتار جان بوجھ کر سست کردی گئی یا حکومتی اہلکاروں پر ڈرگ مافیا حاوی ہوگیا ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا ۔ البتہ اس بات کے شواہد ہیں کہ مہم میں سست رفتاری دیکھی جارہی ہے ۔ اگر بعض اہلکار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکھیں گے اور جعلی اور زائد المیعاد ادویات کے خلاف کارروائی مکمل طورپر بند کردیں گے تو شاید ان کی فاش غلطی ہوگی ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ ہر دکان پر فروخت ہونے والی دوا اصلی ہے جعلی نہیں اور نہ ہی زائد المیعاد ہے اور اس کے استعمال سے مریضوں کی زندگی کو خطرات لاحق نہیں ہیں۔ اگر کسی بھی مریض کو صرف اس وجہ سے نقصان پہنچا یا مریض کی موت واقع ہوگئی وہ بھی صرف جعلی یا زائد المیعاد ادویات کے استعمال سے، اس میں ملزم دکاندار کے ساتھ ساتھ حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہوگی۔ اس لیے حکومت کو چائیے کہ وہ جعلی اور زائدالمیعاد ادویات کے خلاف مہم اس وقت تک جاری رکھے تاکہ لوگوں کو یہ مکمل یقین ہو کہ استعمال ہونے والی دوائی معیار کے مطابق اور اصلی ہے جعلی اور غیر معیاری نہیں ہے ۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں جعلی اشیاء کے بنانے اور فروخت کرنے سے متعلق پولیس کے اخبارات بحال کیے جائیں ۔ وفاقی حکومت نے ایک آرڈر کے تحت صرف ایف آئی اے کو یہ اختیارات دئیے کوئٹہ میں ایک فرض شناس پولیس افسر نے جعلی اشیاء تیار کرنے کی پوری فیکٹری پکڑی اور جعلی اشیاء برآمد کیں ۔ جعلی اشیاء تیار کرنے والی فیکٹری کو بحال کیا گیا اور تھانے دار کو معطل کردیا گیا کہ اس نے چھاپہ کیوں مارا ، گرفتاریاں کیوں کی گئیں ، جعلی اشیاء کیوں بر آمد کی گئیں ۔ ہم اس لیے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کی حکومت پولیس کو بھی وہی اختیارات دے جو وفاقی ادارے کو دئیے گئے ۔ وفاقی ادارے کو یہ اختیارات دینے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جعلی اشیاء، ادویات اور اشیاء کے خلاف کارروائی نہ کی جائے کیونکہ بلوچستان میں ایف آئی آے قلیل تعداد میں کوئٹہ میں موجود ہے ۔