گڈانی میں پرانے جہاز توڑنے کے یارڈ میں ایک آئل ٹینکر میں دھماکہ ہوگیا جس کے بعد اس میں آگ لگ گئی جس میں آخری اطلاعات آنے تک بیس مزدور ہلاک ہوچکے تھے اور پچاس سے زیادہ زخمی ۔ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ادھر مقامی لوگوں کے مطابق اس جہا ز پر 200مزدور کام کررہے تھے جن میں سے بعض لا پتہ ہیں۔ مقامی لوگوں کا اندازہ ہے کہ اس حادثے میں تقریباً پچاس یا اس سے زائد مزدورہلاک ہوگئے ہیں سرکار ی اطلاعات کے مطابق جہاز کے خریدار اور اس کے ٹھیکے دار نے متعلقہ حکام خصوصاً بی ڈی اے اور محکمہ ماحولیات سے اجازت لیے بغیر جہاز کے توڑنے کا کام شروع کردیا جس کے باعث یہ حادثہ پیش آیا ۔ پہلے جہاز کے اندر ایک زور دار دھماکہ ہوگیا اور بعد میں اس میں آگ بھرک اٹھی ۔بتایا جاتا ہے کہ جہاز کے ٹینکر میں بڑی مقدار میں خام تیل موجود تھا جس کی وجہ سے آگ پر تین دن تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ اگر محکمہ ماحولیات سے پیشگی اجازت لینے کی صورت میں مالک یا ٹھیکے دار سے تیل نکالنے کاکام پہلے لیا جاتا اور بعد میں اس جہاز کو توڑنے کی اجازت دی جاتی تو اس حادثہ سے بچا جا سکتا تھا۔شاید اضافی اخراجات سے بچنے کے لئے مالک نے پہلے جہاز توڑنے کا کام شروع کروادیا جس کی وجہ سے یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا۔یہ بات ہم صحافیوں کو بخوبی معلوم ہے کہ گڈانی کے مقام پر جہاز توڑنے کی صنعت پر بڑے بڑے دولت مند اور صنعت کار قابض ہیں جن کی وزیراعظم کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں اس لیے وہ سرکاری ملازم کو خاطر میں نہیں لاتے اور پاکستان کے حاکم اعلیٰ فوری طورپر اعلیٰ ترین افسران کی معاونت سے ان صنعت کاروں کی امداد کو فوری طورپر پہنچ جاتے ہیں اور ملازمین کو ڈانٹ پلائی جاتی ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ گڈانی میں سیفٹی قوانین نہ بننے دئیے گئے اور نہ ہی ضروری آلات فراہم کی گئیں جس سے حادثہ کی صورت میں پھنسے ہوئے مزدورں کی فوری امداد کی جاسکے ۔حالیہ دنوں میں گڈانی کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لئے زبردست مظاہرے کیے ۔ احتجاج کیے جلسے کیے اور جلوس نکالے جس میں ان کے تمام جائز قانونی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔ ملک کے موثر ٹریڈ یونین لیڈروں نے ان اجتماعات سے خطاب بھی کیا اور ان کے جائز مطالبات کی حمایت کی جن میں کام کے اوقات کار میں کمی اوران کی زندگی کے تحفظ کے مطالبات کو اولیت دی گئی ۔