حکمرانوں نے بلوچستان کو حقیقتاً ایک بڑی کچی آبادی میں تبدیل کردیا ہے گندگی کے ڈھیر ہر شہر اور ہر قصبے میں نظرآتے ہیں تقریباً ہر شہر میں شہری نظام زندگی مفلوج نظر آتی ہے ۔ شایدہی کسی ایک سڑک یا گلی میں کوئی خاکروب یا اہلکار کچرہ اٹھاتے نظر آتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ خاکروب حضرات کو طاقتور عناصر نے بھرتی کرایا ہے اور ان کاکام صرف اور صرف سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرنا ہے کوئی خدمات انجام دینا ہر گزنہیں ہے ۔ دوسری طرف اتنی بڑی تعداد میں میونسپل اور مقامی اداروں میں بھرتیاں کی گئیں ہیں کہ پوری کی پوری بجٹ صرف تنخواہیں ادا کرنے پر خرچ ہوجاتی ہے ۔ صحت اور صفائی، کچرہ اٹھانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچتا بلکہ بعض اوقات ان کے سہ ماہی فنڈ کم پڑ جاتے ہیں اور ملازمین احتجاج کرتے، جلوس نکا لتے نظر آتے ہیں۔ ایک جانب بلوچستان اسمبلی کے طاقتور اراکین پورے کے پورے بجٹ پر اپنا حق جتاتے ہیں اور مقامی اداروں کو نہ اختیارات اور نہ فنڈ دینے کو تیار ہیں ۔ بلکہ ان میں صوبائی وزراء پیش پیش ہیں وہ مقامی اداروں کے اراکین اور نمائندوں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان کو کوئی اختیار نہ دیئے جائیں۔ فوجی حکومت میں مقامی ادارے زیادہ بااختیار اور زیادہ سے زیادہ فنڈ کے مالک تھے صرف سیاسی وجوہات کی بناء پر سیاسی ادوار میں مقامی ادارے نفرت کا نشانہ بنے ۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد سے مقامی ادارے ابھی تک مکمل طورپر فعال نہ ہو سکے ۔ اور نہ ہی اس کی امید رکھنی چائیے کیونکہ سیاسی حکومتیں اپنا اختیار بر قرار رکھنا چاہتی ہیں ۔ ہر اس کوشش کو حکومتی سطح پر ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ذریعے صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات مقامی اداروں کو منتقل کریں ۔مقامی اداروں کی عدم موجودگی یا عدم فعالیت کا مطلب بلوچستان میں ایک بہت بڑی کچھی آبادی ہے اوراس کے لیے کچھ نہیں ۔