کوئٹہ : سانحہ سول ہسپتال کی انکوائری کیلئے تشکیل دئیے گئے جوڈیشل کمیشن کے جج جسٹس جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ڈاکٹرز کے بیانات سے لگ رہاہے کہ بلوچستان میں سرکاری ہسپتال نہیں بلکہ مافیاز اور گینگز چل رہے ہیں جس چیز کے متعلق ریکارڈ اور دستاویزات طلب کرتے ہیں وہ موجود نہیں ہوتے یہی رویہ رہا تو چیف سیکرٹری ،سیکرٹری صحت سمیت دیگر حکام کو نااہل لکھنے پر مجبور ہونگے ،سرکاری حکام گھر آنے جانے میں لگے ہوئے ہیں لوگوں کو صحت کی سہولیات دینے کا کسی کو خیال نہیں ،کبھی صاحب کے ٹریفک میں پھنس جانے کے بہانے کئے جاتے ہیں تو کبھی کچھ اور کہاجاتاہے سرجیکل یونٹ ٹو کے ہیڈ کی جانب سے ڈاکٹر ز کی غیر حاضری سے متعلق 14بار شکایت کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے ،کوئی لافٹر پروگرام چلتا تو ہنس پڑتا مگر یہاں محکمہ صحت کی صورتحال اس قدر خراب ہوگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن کی سماعت شروع ہوئی تو اس موقع پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ ،سابق ایم ایس سول ہسپتال عبدالرحمن میاں خیل ،ایڈیشنل سیکرٹری صحت ،سینئر وکلاء ہادی شکیل ایڈووکیٹ ،نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ ،محمدعامر ایڈووکیٹ ،منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ ،ساجد ترین ایڈووکیٹ ،سید نذیر آغا ایڈووکیٹ ،محمداسحاق ناصر ایڈووکیٹ ،نادر چھلگری ایڈووکیٹ ،اسد اچکزئی ایڈووکیٹ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔اس موقع پر ڈاکٹرصائمہ ،ڈاکٹر شہلا کاکڑ اورڈاکٹر سید سلیم آغا نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان حلفی قلم بند کرائے ،ڈاکٹرصائمہ نے صبح ہی کمیشن کو اپنابیان قلم بند کرادیاتھا انہوں نے کمیشن کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے بھی جوابات دئیے ۔شہلا کاکڑ نے اپنے بیان حلفی میں کہاکہ وہ سانحہ 8اگست کے موقع پر موجود تھی اور زخمیوں کو طبی امداد دے رہی تھی اس دوران وکلاء آئے اور کہنے لگے کہ ان کے دیگر زخمی ساتھی کہاں لے جائے گئے ہیں بعد ازاں زخمیوں کو آپریشن تھیٹر لے جایاگیا میں نے دھماکے کے تقریباََ15منٹ بعد پہلے ایمبولینس کی آواز سنی اور وکلاء سے کہاکہ وہ ایمبولینس کیلئے راستہ بنائیں ،انہوں نے کہاکہ سابق ایم ایس ڈاکٹرعبدالرحمن میاں خیل دھماکے کے 45بعد انہیں آتے ہوئے دیکھائی دئیے اس دوران انہوں نے کسی ڈاکٹر ،نرس یا پیرامیڈیک کو مدد کیلئے آتے ہوئے نہیں دیکھا ، میں نے زخمیوں کو طبی امداد اپنی ذمہ داری سمجھ کر اور رب کو راضی کرنے کیلئے کیا میں اس کا اپنے رب سے صلہ چاہتی ہوں ۔کمیشن نے انہیں پہلی گواہ کی جانب سے پیش کئے گئے تصاویر دکھائے اور سوال کیا کہ آپ کہہ رہی ہے کہ 45منٹ تک کوئی ڈاکٹر ،پیرامیڈیکس یا نرس زخمیوں کی موقع پر طبی امداد کیلئے نہیں پہنچا مگر ان تصاویر میں ڈاکٹرز اورپیرامیڈیکس کو زخمیوں کی مدد کرتے ہوئے دکھایاگیاہے جس پر ڈاکٹر شہلا نے کہاکہ تصاویر میں وکلاء پر سفید کپڑے بچھائے گئے ہیں جو موقع پر 45منٹ تک میں نے نہیں دیکھے موقع پر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ انہوں نے کہاکہ دھماکے کے قریب 3آپریشن تھیٹرز سمیت گائنی ڈیپارٹمنٹ کے آپریشن تھیٹر کو بھی نقصان پہنچاہے جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت گائنی ڈیپارٹمنٹ کے دو آپریشن تھیٹرز میں مریضوں کے آپریشنز جاری تھے وہاں کتنے زخمی لے جائے گئے مجھے علم نہیں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرشہلا کاکڑ نے بتایاکہ انہوں نے سول ہسپتال کے ایمبولینس ڈرائیورز کو زخمیوں کو لے جانے کے لئے ایمبولینسز لانے کا کہا تو انہوں نے کہاکہ ایمبولینسز نہیں ہیں ۔ انہوں نے ڈرائیورز کے نام بھی بتائے اور کہا کہ 3 ڈرائیورز جنہیں میں نے ایمبولینسز لانے کے لئے کہا میں عاشق ، نور اور بنگلزئی کے نام سے مشہور ڈرائیورز شامل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرز ، نرسز ، ایمبولینسز ، آلات ، بینڈیجز ، خون کو روکنے والی پٹیاں اور سٹریچرز موجود ہوتے تو زخمیوں کو بہتر طبی امداد دی جاسکتی تھی اور انہیں بچایا جاسکتا تھا ۔ایس او پیز کے تحت تمام طبی اور نیم طبی عملے کو موقع پر پہنچ جانا چاہیے تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ 8 اگست تک سول ہسپتال میں کوئی ایمرجنسی پلان نافذ العمل نہ تھا اگر ٹراما سینٹر لیول ون فعال ہوتا تو اموات کم ہوتیں ۔ انہوں نے کہاکہ طبی امداد کے لئے کیٹس ہونے چاہیے تھے ۔ ان سے جب بولان میڈیکل کالج کے ایم ایس ڈاکٹر محمد ایوب کی جانب سے پوچھا گیا سوال کمیشن نے کیا اور کہاکہ انہوں نے کسی کو بی ایم سی زخمی لے جانے کی ترغیب دی تو وہ بولے کہ نہیں کیونکہ میں نے بی ایم سی میں بھی کام کیا ہے اس کی حالت سول ہسپتال سے مختلف نہیں ۔ ڈاکٹر عظیم اللہ بابر کے سوال پر ڈاکٹر شہلا نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں اسلم رئیسانی کے دور میں سو خریدے گئے طبی امداد کیٹس کہاں گئے ۔ گائنی ڈیپارٹمنٹ میں ڈاکٹرز نے زندگی بچانے والی ضروری ادویات کو اپنے جیب خرچ سے خرید کر اپنے پاس رکھا ہے ۔ اس موقع پر عدالت میں موجود تمام وکلاء نے ڈاکٹر شہلا کا شکریہ ادا کیا اور بعد ازاں وکلاء نے فرداً فرداً آکر ڈاکٹر شہلا کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے والد کو بھی بہادر بیٹی کی کارکردگی پر مبارکباد پیش کی ۔ بعد ازاں ڈاکٹر سید سلیم آغا کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہاکہ وہ 2014 سے سول ہسپتال میں سرجیکل یونٹ II کے انچارج ہیں اس سے پہلے وہ 10 سال تک سعودی عرب میں بھی کام کرچکے ہیں ۔سعودی عرب کے علاوہ وہ اسلام آباد اور کراچی میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سول ہسپتال کوئٹہ اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں کل 4 سرجیکل یونٹس کام کررہے ہیں جن میں سے 2 سول جبکہ 2 بی ایم سی میں ہیں وہ دھماکے والے دن ساڑھے 8 بجے سول ہسپتال پہنچے اور آپریشن تھیٹر میں موجود مریض کے آپریشن کے لئے انستھیزیا ڈاکٹر کو مدد کے لئے کہا جب کہ سرجیکل یونٹ ون میں ڈاکٹر جمیل احمد خان اور دیگر کو ایمرجنسی کیسز کو ڈیل کرنے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی آپریشن تھیٹر میں 2 ٹیبلوں میں سے ایک غیر فعال ہے کبھی کبھار اس پر مائنر ٹریٹمنٹ مریضوں کی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ مریض کاآپریشن کررہے تھے کہ آپریشن تھیٹر میں موجود ایک ساتھی نے انہیں بتایا کہ نیچے بہت زیادہ وکلاء آئے ہیں شاید کوئی واقعہ ہوا ہے اس دوران زور دار دھماکہ ہوا اور آپریشن تھیٹر کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں جبکہ کمرہ دھوئیں سے بھر گیا ۔ ان کا انستھیزیسٹ ساتھی ڈاکٹر بھی زخمی ہوا تھا ۔ انہوں نے پہلے آپریشن مکمل کیا اور بعد ازاں زخمی ڈاکٹر کو طبی امداد فراہم کی اور اسے آپریشن تھیٹر سے نکال کر دوسرے انستھیزیسٹ ڈاکٹر کی خدمات لی اس کے بعد 2 زخمی ان کے آپریشن تھیٹر لائے گئے جسے اس نے طبی امداد فراہم کی اس کے بعد ایک ڈاکٹر اور ایخ شہری کو زخمی حالت میں ان کے پاس پہنچایا گیا جن کی بھی انہوں نے مرہم پٹی کی بعد ازاں وہ اگلے آپریشن تھیٹر گئے تو انہوں نے اپنے قریبی رشتہ دار سید عبدالغنی جان آغا ایڈووکیٹ کو زخمی حالت میں دیکھا انہوں نے اس کا معائنہ کیا تو ان کی حالت خطرے سے باہر تھی بعد ازاں وہ وارڈ کے لئے نیچے اترے تو وہاں ہر طرف افراتفری اور رش تھا ۔ ایمرجنسی وارڈ کے تمام مریض میرے یونٹ میں شفٹ کردیئے گئے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ سرجیکل II وارڈ میں 22 ڈاکٹرز کی ڈیوٹی ہوتی ہیں مگر انہوں نے صرف ایک ڈاکٹر نصیب اللہ کو دیکھا ان سے جب کمیشن کے جج نے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ کتنے ڈاکٹرز غیر حاضر تھے تو وہ بولے کہ میں ایک ڈاکٹر کو دیکھ چکا ہوں باقیوں کا مجھے علم نہیں ۔ سرجیکل II وارڈ میں موجود حاضری رجسٹر پہلے سے ہی غائب کردیا گیا تھا ڈاکٹروں کی غیر حاضری اور غیرذمہ دارانہ رویہ اور رجسٹر کی گمشدگی سے متعلق وہ ایم ایس کو تحریری طور پر شکایات کرچکے ہیں ۔ غیر حاضر ڈاکٹرز کی شکایات انہوں نے سابق سیکرٹری محمد عمر بلوچ ، سابق ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر عبدالرحمن میاں خیل ،ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر جمیل اور پرنسپل بولان میڈیکل کالج کو کرچکے ہیں مگر سیاسی مداخلت کی وجہ سے ان کا ماتحت عملہ ان کی ایک بات بھی ماننے کو تیار نہیں ۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ وہ جو بھی کرسکتا ہے کرلے ان کا کچھ بھی نہیں بگڑنے والا ۔