فیڈریشن چیمبر آف کامرس کے مرکزی صدر نے آگ میں تباہ شدہ بحری جہاز کے گرفتار مالک کی رہائی کا مطالبہ کردیا ۔ فیڈریشن نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو فیڈریشن کے ایک جلسہ میں مہمان خصوصی کے طورپر بلایا اور وہاں صرف ایک ہی مطالبہ کیا کہ بحری جہاز کے ملزم سیٹھ کو رہا کیاجائے ۔اس بحری جہاز میں 200ٹن تیل موجود تھا جس کی صفائی کرنے سے پہلے اس کے توڑنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیٹھ اور اس کا ٹھیکے دار کتنے بے صبر تھے کہ جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے۔ ان کوحفاظتی اقدامات اٹھانے اور انسانوں کی جانوں کو پہلے محفوظ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ،لوٹ مار اور دولت کمانے میں دلچسپی ہے ۔ایسا شخص کسی ہمدردی کا مستحق نہیں ہے ایسے شخص کو جلد سے جلد عدالت سے سز املنی چائیے۔ ایک ذریعہ نے الزام لگایا ہے کہ شپ بریکنگ مافیا تیل کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ میں بھی ملوث ہے ۔ اور یہ مافیا گڈانی شپ بریکنگ کی آڑ میں تیل بھی اسمگل کررہا ہے ۔ اب تک سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا یا ہے ۔ وفاقی حکومت کے کرپٹ عناصر ان کی معاونت کررہے ہیں اب اس کی بھی تحقیقات ہونی چائیے مگر مبصرین کا خیال ہے کہ شپ بریکنگ یا گڈانی مافیا ملک میں بہت زیادہ مضبوط ہے اور ان کے اعلیٰ ترین شخصیات سے ذاتی تعلقات ہیں ۔ تمام شپ بریکر بشمول ان کے ایسوسی ایشن سب کے سب وزیراعظم نواز شریف کے سکریپ مافیا کے رکن ہیں ، ان کو خام مال فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے وہ خود گڈانی سے اربوں روپے کمار ہے ہیں جبکہ حکومت بلوچستان کی آمدنی سالانہ پانچ لاکھ ہے ۔ سارے ٹیکس وفاقی حکومت لے جاتی ہے اور صحت ’ صفائی ’ سیکورٹی اور دیگر معاملات کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے جو ایک نا مناسب بات ہے صوبہ بلوچستان کو کم سے کم نصف آمدنی کا براہ راست حقدار بنایا جائے یا بلوچستان حکومت ان شپ بریکرز کی آمدنی پر بیس فیصد ٹیکس عائد کرے ۔کارکنوں کی فلاح و بہبودکی تمام تر ذمہ داری شپ بریکر ایسوسی ایشن پر ہونی چائیے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے شکایت کی کہ شپ بریکرز نے اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں حالانکہ ان کو اپنی آمدنی کا کم سے کم پندرہ فیصد حصہ مقامی آبادی پر خرچ کرنا چائیے تاکہ ان کو صحت اور صفائی ’ تعلیم کی سہولیات حاصل ہوں ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شپ بریکنگ کی صنعت کو زیادہ سہولیات حکومت بلوچستان اس وقت فراہم کر سکتی ہے جب اس کو ایشیاء کی سب سے بڑی یارڈ سے خاطر خواہ آمدنی ہو ۔ ہم وزیراعلیٰ کو مشورہ دیتے ہیں کہ صوبائی سیکرٹری مالیات کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی جائے جو طریقہ کار وضع کرے کہ کس طرح اس صنعت پر ٹیکس لگائے جائیں اور صوبائی حکومت کو خاطر خواہ آمدنی ہو ۔ گزشتہ پچاس سالوں میں اس صنعت سے بلوچستان کو صرف پانچ لاکھ روپے سالانہ ملتے رہے ہیں ۔ یہ استحصال کاایک اور شرمناک پہلو ہے ۔ اس انکشاف کے بعد کہ بلوچستان کو صرف پانچ لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے سیاسی جماعتیں حکومت پر دباؤ بڑھائیں کہ ان پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جائیں تاکہ ان سے گزشتہ ادوار کے ٹیکس بھی وصول کیے جائیں یا وفاقی حکومت اس سیکٹر کے تمام ٹیکس حکومت بلوچستان کے حوالے کر ے ۔