|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سانحہ پولیس ٹریننگ کالج کے حوالے سے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک التوا حکومت کی جانب سے ان کیمرہ بریفنگ کی یقین دھانی کے بعد نمٹا دی گئی ،بحث کے دوران حکومت اور پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اسمبلی نے بلوچستان میں بچوں کے تحفظ کے بل کا مسودہ قانون منظور کرلیاگیا،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو روز کے وقفے کے بعد اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیرصدارت پیر کو منعقد ہوا،ایوان میں گذشتہ اجلاس میں پیش کردہ بلوچستان میں بچوں کے تحفظ سے متعلق بل کا مسودہ قانون منظور کرلیاگیا،اجلاس میں سانحہ پولیس ٹریننگ کالج کے حوالے سے بحث کے دوران قائد حزب اختلاف مولاناعبدالواسع نے کہا کہ ہمیں امن وامان پران کیمرا بریفنگ کاوعدہ کیاگیاتھاجو پورا نہیں ہوا،انہوں نے کہا کہ سانحہ پولیس ٹریننگ کالج حکومت کی غفلت کانتیجہ ہے،انہوں نے کہا کہ معلومات کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے،صوبے میں امن وامان کی بہتری کیلئے کام کیاجائے ہم حکومت کیساتھ ہیں،رکن اسمبلی اے این پی زمرک خان کا کہناتھا کہ سانحہ پی ٹی سی کی انکوائری سپریم کورٹ کے جج سے کر وائی جائے اور اس میں جاں بحق پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو ایک،ایک کروڑ روپے معاوضہ دیاجائے،زمرک خان نے امن وامان پرخرچ ہونیوالی رقم کی تفصیلات ایوان میں پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا،جے یو آئی کی رکن اسمبلی شاہدہ روف کا کہناتھا کہ پے درپے واقعات کاہوناحکومت کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے،ایک دھمکی تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی آئی ہے ان کے لئے بھی حفاظتی اقدامات کئے جائیں،رکن اسمبلی اور سابق وزیراعلی اور سابق اسپیکر میر جان جمالی کا کہناتھا کہ ہر سانحہ کے بعد وزیرداخلہ کاکام صرف پریس کانفرنس کرنا رہ گیاہے،بد امنی کے واقعات روکنے کیلئے وزیرداخلہ بھرپورہدایات کیوں نہیں دیتے،جمہوریت میں ہرسانحہ کے بعد وزراء استعفی دیتے ہیں،مگر ہمارے ہاں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کردیاجاتاہے،پولیس افسران چھاونی میں رہ رہے ہیں اور شہر کو ایس ایچ اوزچلارہے ہیں،،پولیس کا کام تو صرف اسمگل شدہ ڈیزل کی گاڑیاں کراس کرانارہ گیاہے انہوں نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ پولیس اہلکار تربیت یافتہ تھے مگران کے پاس ہتھیارکیوں نہ تھے،،اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخواہ میپ کے رکن اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کا کہناتھا کہ پولیس کیڈٹس کو پاسنگ آوٹ کے بعد واپس کیوں بلایاگیاکیاانہیں قتل کرانے کیلئے واپس بلایاگیا،،پولیس کیڈٹس کو ایڈشنل آئی جی ایوب قریشی نے بلایا، انہیں معطل کرکے ان کیخلاف انکوائری کی جائے،،ان کا یہ بھی کہناتھا کہ ہرسال امن وامان کیلئے30ارب روپے مختص کئے جاتے ہیں،ساڑھے تین سال میں 100ارب روپے سے زائد رقم کہاں گئی،،کوئٹہ میں 11ہزارپولیس اہلکار ہیں،ان میں سے700اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں،باقی اہلکار افسروں کے گھروں میں کھانابناتے ہیں یاآدھی تنخواہ افسران کو دیتے ہیں،عبدالمجید اچکزئی کا یہ بھی الزام تھا کہ آئی جی سے لیکرسب افسران منتھلی کھاتے ہیں،شاہدہ رؤف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہم یہاں آکر صرف باتیں کرتے ہیں حکومت ایوان میں ان مسائل پر بحث کو صرف اپنے لئے فیس سیونگ کا ذریعہ سمجھتی ہے حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ ہر واقعے کے رونماہونے کے بعد بیٹھ کر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں حالانکہ واقعات رونما ہونے سے پہلے اقدامات اٹھانے چاہئیے پی ٹی سی جیسے سانحات حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے پی ٹی سی واقعے کے بعد تو یہ بیان بھی آیا کہ یہ مغلیہ دور نہیں کہ راتوں رات دیوار تعمیر ہوجائے شاہدہ رؤف نے کہا کہ پھر تو مغلیہ دور اس سے زیادہ اچھا تھا جس میں راتوں رات دیوار تعمیر ہوجاتی تھی انہوں نے امن وامان پر بحث کے دوران صوبائی ترقیاتی پروگرام میں رکھے گئے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کا ماتحت عملہ کیا کرتا ہے وزیراعلیٰ ایک مسئلے کے حل کے لئے ہدایات دیتے ہیں اور وہ مسئلہ جوں کا توں پڑا رہتا ہے منظور خان کاکڑ نے تحریک التواء پر بحث کے دوران حکومت کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھائے اور کہا کہ اس افسوسناک واقعے میں اٹھارہ سے22سال کی عمر کے بچے شہید ہوئے ان کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے انہی کے ووٹ سے ہم یہاں آکر بیٹھے ہیں اگر آج بھی ہم چپ رہے تو یہ زیادتی ہوگی اتنے عرصے میں پولیس ٹریننگ کالج کی چاردیواری کیوں تعمیر نہیں کی گئی اگر محافظوں کی یہ حالت ہوگی تو عوام کس کے پاس جائیں گے پہلے بھی اس طرح کے وقعات ہوئے ہمیں چاہئے تھا کہ ہم سنجیدہ لیتے اور چار دیواری بناتے کچھ سامنے نہیں آرہا کہ کس ان بچوں کو کس نے دوبارہ بلایا تین گھنٹوں تک انہیں جس طرح مارا گیا اس طرح کوئی جانوروں اور پرندوں کو بھی نہیں مارتامنظور خان کاکڑ نے کہا کہ شہید وکلاء کے لئے ہم نے معاوضے کا اعلان کیا مگر ان شہید اہلکاروں کے لئے آج تک نہیں کیا ہوم منسٹر کے پاس بالکل اختیار نہیں ہیں خود وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ میرے پا س اختیارات نہیں ہے ۔ مجلس وحدت المسلمین کے رکن آغا رضا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت روز اول سے عسکریت پسندی کے خلاف رہی ہے نیشنل ایکشن پلان پر عملدآمد ہونا چاہئے ہمارے لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں پہلے ہمارے لوگوں کو مارا جاتا رہا پھر وکلاء اب پولیس اہلکار وں کو شہید کیا گیا انہوں نے کہا کہ یہ آگ پورے ملک میں لگی ہے ہم پاکستان کی ترقی کے خواہاں ہیں ۔حسن بانو رخشانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے وکلاء کے لئے تواعلان کیا مگر شہید پولیس اہلکاروں کے لئے نہیں میرا سوال یہ ہے کہ کیا وکلاء ان شہید اہلکاروں سے زیادہ غریب اور مستحق ہیں وکلاء کی طرح شہید پولیس اہلکاروں کے لئے بھی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ثمینہ خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ انتہائی افسوسناک ہے شہداء کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں گزشتہ ایک سال سے مسلسل ایسے حادثات ہورہے ہیں عوام کو بتایا جائے کہ اب تک حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں کوئٹہ میں خودکش حملہ آوروں کے داخل ہونے کی صرف اطلاع نہ دی جائے بلکہ بتایا جائے کہ ان کو روکنے کے لئے کیا کیا گیا ہے وزیر داخلہ خو د یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اختیارات نہیں توپھر اختیارات کس کے پاس ہیں ہمیں اب اعلانات اور بیانات سے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی وزیر نواب محمدخان شاہوانی نے سانحہ پی ٹی سی کو انتہائی دردناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے واقعات کے محرکات کو سمجھنا ہوگا ہمیں مختلف ذرائع سے دہشت گردی کے خطرات کی اطلاعات ملتی ہیں اور جن پر حکومت سنجیدگی سے کارروائی بھی کرتی ہے کوئی حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے دور میں کوئی سانحہ رونما ہو یہاں یہ تاثر دیا گیا کہ اس سانحے کے بارے میں حکومت یا پھر متعلقہ حکام کو کوئی اطلاع تھی اور اس واقعے کو نہیں روکا گیا ایسا قطعی طو رپر نہیں ہے کیونکہ حقائق کبھی نہ کبھی سامنے آتے ہیں تاہم اس واقعے میں متعلقہ حکام کی جانب سے غفلت ہوسکتی ہے اور جو انسانوں سے ہوسکتی ہے تاہم اس کو بھی دیکھاجارہا ہے ہمیں اپنی فورسز پر بھرپور اعتماد ہے وزیراعلیٰ کی کوششوں سے فراری ہتھیار ڈال رہے ہیں ہم سب نے مل کر دہشت گردی کو روکنا ہوگا ۔ صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ سانحہ پی ٹی سی پر اپوزیشن سے زیادہ ہمیں غم ہے ہم جس خطے میں ہیں اور پھر پاکستان اور خاص طور پربلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے غیر ملکی ایجنسیوں نے بھی بلوچستان کو ہدف بنایا ہوا ہے سانحہ پی ٹی سی میں شاید غفلت ہوسکتی ہے مگر ہم نے حقائق عوام کے سامنے اور عوام کے تحفظ کے لئے اب غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے کسی اطلاع پر اپنے تعلیمی اداروں کو مستقل بند نہیں کرسکتے ہم نے ایسے اقدامات کرنے ہیں کہ جس سے بیس لاکھ کی آبادی کے شہر کو امن دے سکیں حکومت پورے صوبے میں امن وامان کے قیام کے لئے ہرممکن اقدامات کررہی ہے اور جو ہوسکے گا وہ کرکے رہیں گے کوئٹہ میں فورسز کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا جمعیت العلمائے اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہم سانحہ پی ٹی سی کے متاثرین کے غم میں برابر کے شریک ہیں شہید ہونے والے بچے ہمارے تھے جو ٹریننگ مکمل کرکے گھروں کو چلے گئے تھے معلوم کیا جائے کہ ان کو کیوں بلایا گیا ہم الزامات میں نہیں جاتے مگر جوواقعات ہورہے ہیں وہ افسوسناک ہیں نواب رئیسانی کی حکومت امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ختم ہوئی تھی تاہم موجودہ حکومت اور ڈاکٹر عبدالمالک کے دور میں بھی یہ واقعات ختم نہیں ہوئے یہ بات خوش آئند ہے کہ سانحہ کے بعد وزیراعلیٰ وزیر داخلہ اور دیگر حکام آن بورڈ تھے وزیر داخلہ خود موقع پر موجود تھے جس پر مبارکباد دیتا ہوں انہوں نے کہا کہ ہر واقعے کے بعد اسے سی پیک سے جوڑا جاتا ہے جبکہ بلوچستان میں تو سی پیک کے حوالے سے ترقی ہو ہی نہیں رہی انہوں نے کہا کہ شہر میں دہشت گردوں کے داخل ہونے کی اطلاع تو دی جاتی ہے روک تھام کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم صرف سچ بول کر چل سکتے ہیں اس وقت پورا خطہ اورخا ص طور پر ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے بلوچستان اور کے پی کے کنفلیکٹ زون میں ہیں ایسا کیوں ہوا اس کے ذمہ دار کون ہیں اس کا تعین ایک تو تاریخ کرے گی اور پھر کتابیں موجود ہیں جن میں ان سب کا تعین کیا جاچکا ہے جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو دہشت گردی اور جرائم کی وارداتیں دونوں تھیں ہم نے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کردیا دہشت گردی پر قابوپانے کے لئے کوشاں ہیں سانحہ پی ٹی سی کے موقع پر رات ایک بجے میرا وزیر داخلہ سے رابطہ ہوا تو وہ خود پی ٹی سی میں موجود تھے ہمیں وہاں ہونے والی شہادتوں کا دکھ ہے سانحہ کی تحقیقات ہر طرح سے کریں گے ذمہ داروں کا تعین کیاجائے گا اور جو بھی ذمہ دار ہوں گے ان کو سزا ضرور ملے گی ہم اور ہماری فورسز میدان میں موجود ہیں ارکان اسمبلی کو ان کیمرہ بریفنگ بھی دیں گے ۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ صوبائی حکومت دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور ہم نے اس میں اب تک جو کامیابی حاصل کی ہے اس سے میں ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ میں آگاہ کروں گا ہم ذمہ دار لوگ ہیں جو بھی مسائل ہیں وہ ہم حل کریں گے گزشتہ کچھ عرصے میں مختلف افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں مگر صوبائی حکومت میدان میں موجود ہے اور اپنے عوام کے تحفظ کے لئے ہم ہرممکن اقدامات کررہے ہیں ہم دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں ہماری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں سانحہ8اگست پر جوڈیشل کمیشن موجود ہے سانحہ پی ٹی سی کی مکمل تحقیقات کریں گے جو بھی ذمہ دار ہوا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔تحریک التواء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کا واقعہ دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے سیکورٹی لیپس کی ایوان میں بات ہوئی تو ہم اپنا محاسبہ بھی کرتے ہیں ہم خامیوں کو دیکھتے ہیں کہ کہاں ہے جو بھی ذمہ دار ہوگا اس کے خلاف ہم کارروائی کریں گے اس واقعے کے فوراً بعد پی ٹی سی کے کمانڈنٹ اور ڈپٹی کمانڈٹ کو معطل کیا گیا اس کے علاوہ بھی تین کمیٹیاں بنی ہیں جو بھی تجویز آئے گی اسے خوش آمدید کہیں گے انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی ایک جعلی ذمہ داری داعش نے قبول کی وہ اس لئے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کی اجائے یہ کارروائی لشکر جھنگوی العالمی نے کی اور افغانستان سے اس کی نگرانی ہوتی رہی انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں یہ ایک مشکل جنگ ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مشکل جنگ ہے افغانستان میں نیٹو فورسز نے ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں یہ ایک مشکل جنگ ہے جسے حکمت عملی سے لڑنا چاہئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ہم نے 4956انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے ان کارروائیوں میں کتنے دہشت گرد پکڑے گئے اور کتنے دہشت گردوں کو مارا گیا یہ ساری تفصیلات ان کیمرہ بریفنگ میں دی جائیں گی یہ جنگ حکمت عملی سے لڑنی اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوناچاہتے ہم عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جو ہمارے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں اور یہاں ان کے آلہ کار کون ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اوریہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ اس وقت بارڈر مینجمنٹ نہیں ہورہی اس وقت چمن سرحد سے روزانہ 12لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے طویل سرحد ہے جس پر واقع گاؤں کا آدھاحصہ پاکستان میں آدھا افغانستان میں ہوتا ہے ایک قبیلہ ہوتا ہے جو دونوں طرف آباد ہوتا ہے یہ مشکلات ہیں پھر ہم ایک قبائلی معاشرے کا حصہ ہیں انہوں نے کہا کہ یہی وہ وقت ہے جب ہم نے اپنی پولیس کے مورال کو گرنے نہیں دینا دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ لڑنا صرف اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے دوستوں نے مستعفی ہونے کی بات کی میرے مستعفی ہونے سے اگر مسائل حل ہوتے ہیں تو میں مستعفی ہوجاتا ہوں مگر یہ مسائل ہمارے استعفے سے حل نہیں ہونے والے۔