|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2016

کوئٹہ سے لے کر قلات تک گیس صارفین مسلسل احتجاج کررہے ہیں کہ سردی کے شروع ہوتے ہی گیس کی لوڈشیڈنگ بھرپور انداز میں شروع کی گئی ہے ۔ کوئٹہ اور قلات کے علاوہ مستونگ اور زیارت سے بھی یہ مسلسل اطلاعات آرہی ہیں کہ گیس کی لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں کی جارہی ہے ۔اس لوڈشیڈنگ کو اگر مردم آزاری سے تعبیر کی جائے تو حق بجانب ہوگا کیونکہ یہ ملک کے سرد ترین علاقے ہیں جہاں زندہ رہنے کے لئے گیس یا کسی قسم کے ایندھن کا ہونا ضروری ہے ۔ قلات میں صرف ہر بوئی کا قیمتی جنگل ہے جو ہزاروں سالوں سے قائم ہے شاید یہ دنیا کا دوسرا بڑا جنیفر کا جنگل ہے جس کے خاتمے کے لئے سوئی گیس کے حکام عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں کہ وہ گیس بند کردیں یا سپلائی کم کردیں تاکہ قلات کے عوام جینفر کا جنگل کاٹنا زیادہ رفتاری سے جاری رکھیں ۔حکومت بلوچستان کو اور خصوصاً بڑی بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کو یہ نوٹس لینا چائیے کہ سوئی گیس کمپنی گیس کی سپلائی کم کرکے یامکمل طورپر بند کرکے لوگوں کی ہمت افزائی کررہی ہے کہ وہ دنیا کے انتہائی قیمتی جنگل خاص طورپر جنیفر کے درخت کاٹیں اور یہ سردیاں بھی اس طرح گزار یں ۔ قلات چونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر وزراء اور سرداروں کا بھی گھر ہے اس لیے وہ اپنا ذاتی اور سرکاری اثروسوخ استعمال کرکے قلات ’ مستونگ اور صوبے کے دوسرے سرد علاقوں میں سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ بند کرادیں اور گیس کی معمول کے مطابق سپلائی فوری طورپر بحال کرادیں ۔ وزیراعلیٰ خصوصی طورپر بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر آغا عرفان کریم کے بیان کا بھی نوٹس لیں جس میں انہوں نے قلات میں گیس کی لوڈشیڈنگ پر شدید احتجاج کیا ہے۔ہم ان کالموں میں یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ کوئٹہ سے لے کر خضدار تک گیس کی بڑی پائپ لائن بچھائی جائے تاکہ پورے وسطی بلوچستان کو گیس کی فراہمی یقینی ہوسکے۔اس کو ایک طرف لوگوں کو سہولیات اور سردی سے بچاؤ کا ذریعہ بنائیں اور ساتھ ہی گیس کو ایندھن کے طورپر استعمال کرکے پورے وسطی بلوچستان کو معاشی ترقی کا بڑا مرکز بنائیں تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے تمام تر ذرائع گھر کے قریب حاصل ہوں ۔ ہم نے خضدار کے لئے ایل پی جی گیس پلانٹ کی شدید مخالفت کی تھی اور یہ یاد دہانی کرائی تھی کہ اس سے صر ف خضدار کے چند گھرانوں کو گیس یا ایندھن کی سہولیات فراہم ہوں گی۔ باقی پورے خطے کے مایوس اور غریب لوگ اس قدرتی نعمت سے محروم رہیں گے ۔ اس لیے ہم آج مطالبہ پھر دہرا رہے ہیں کہ کوئٹہ سے لے کر خضدار تک بڑی اور وسیع گیس پائپ لائن بچھائی جائے تاکہ لوگوں اور صارفین کی گھریلو ضروریات پوری ہوں بلکہ صنعتی اور تجارتی ترقی کے لئے بھی قدرتی گیس وافر مقدار میں دستیاب رہے اور یہی قدرتی ایندھن وسطی بلوچستان کی ترقی کا ضامن ہوگی ۔ سب سے پہلا فائدہ سوراب میں رہنے والے لوگوں کو ہوگا جو وزیراعلیٰ کے قریبی عزیز ہیں ۔ اس لیے وزیراعلیٰ اپنا اثروسوخ استعمال کرتے ہوئے نئی اور بڑی گیس پائپ کا منصوبہ بنائیں اوراس پر عملدرآمد کرائیں۔ بلوچستان کے 29اضلاع قدرتی گیس سے محروم ہیں ساٹھ سالوں بعد بھی اسکے آثار نظر نہیں آتے کہ ان کو گیس کی سہولت مستقبل قریب میں ملے گی اس کے برعکس پنجاب کے آخری سرحدی گاؤں یا قصبہ نارووال کو گیس فراہم کردی گئی ہے جو بھارت کے شہر گورداسپور سے متصل ہے مگر خضدار اور تربت بلوچستان کے دو بہت بڑے شہر ہیں اور وہ بھی مردم خیز شہر لیکن ان کو گیس کی سہولت سے دانستہ طورپر محروم رکھا گیا ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے چونکہ پنجاب کو فائدہ پہنچنے کا امکان کم ہے اس لیے موجودہ حکمرانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کو سرد خانے میں جان بوجھ کر ڈال دیا تاکہ بلوچستان اور سندھ کو اس سے فوائد حاصل نہ ہوں ۔