|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2016

سانحہ سول اسپتال کوئٹہ پر قائم کمیشن کے چئیرمین جسٹس فائز عیسیٰ نے اسپتال کا دورہ کیا اور بعد میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت بڑے سانحہ کے تین ماہ بعد بھی سول اسپتال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گندگی کا وہی عالم ہے اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔جو کچھ سول اسپتال میں ہورہا ہے اس میں افسروں اور ڈاکٹروں کی بدنامی کے علاوہ حکومت وقت کی بھی بد نامی ہے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے دورے اور اس بیان کے بعد یہ امید ہو چلی ہے کہ سول اسپتال میں کسی حد تک بہتری آئے گی اور ڈاکٹر اورکرپشن مافیا کا خاتمہ نہیں تو ان کا اثر ورسوخ اور لوٹ مار کم ہوجائے گی ۔ سول اسپتال کا دورہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ پورا اسپتال جونئیر ڈاکٹر چلا رہے ہیں یا وہ ڈاکٹر جن کے ضمیر زندہ ہیں اور وہ انسانی خدمت یا علاج کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن اکثر بڑے ڈاکٹر حضرات صرف حاضری لگاتے ہیں ایک آدھ گھنٹہ اسپتال میں گزارنے کے بعد اپنے ذاتی کلینک یا پرائیویٹ اسپتال کا رخ کرتے ہیں دوسرے الفاظ میں وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنی ذاتی دکان کو دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ اس کا کوئی علاج تلاش کریں یہ وزیر صحت اور سیکرٹری کے بس کی بات نہیں ۔ وزیر صاحب کی دلچسپیاں کہیں اورجبکہ صحت عامہ کی سہولیات کو بہتر بنانے کی طرف کم ہیں ۔ یا وہ ہر معاملے کو دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں جو نا قابل اعتبار ہے ۔ کوئٹہ شہر کے تمام اسپتالوں میں ڈاکٹر مافیا کا مکمل راج دکھائی دیتا ہے ۔ حکومت نام کی کوئی چیزنظر نہیں آتی ۔ جب نصیر آباد ڈویژن میں زبردست بارشیں ہوئیں اور تباہ کن سیلاب آئے تو کوئٹہ کے اکثر ڈاکٹروں جن میں لیڈی ڈاکٹر بھی شامل تھے انہوں نے آفت زدہ علاقوں میں انسانی خدمات ادا کرنے سے انکار کردیا تھا جو انتہائی افسوسناک بات تھی۔ اس لیے ڈاکٹروں اور خصوصاً بڑے بڑے اور نامی گرامی ڈاکٹروں پر بھی حکومت کی رٹ بحال ہونی چائیے وہ انسانی خدمت کے لیے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں ۔ ہم اپنے ان کالموں میں اس بات کا بار بار مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ فوری طورپر صحت کی بہتر سہولیات دوردراز علاقوں تک پہنچائی جائیں تاکہ ہزاروں کی تعداد میں مریض کوئٹہ یا کراچی کا رخ نہ کریں بلکہ ان سب کو گھروں کے قریب صحت کی تمام سہولیات ملنی چاہئیں ا س کے لئے ہم وفاقی حکومت کے اس منصوبے کی سختی سے مخالفت کی ہے اور کررہے ہیں کہ ایک اور 500بستروں پر مشتمل اسپتال کوئٹہ کی بجائے سبی یا ڈیرہ مراد جمالی میں قائم کیجائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بلوچستان نے خضدار ’ تربت اور لورالائی میں میڈیکل کالج قائم کردئیے ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی بڑا اسپتال بنا یاجارہا ہے ۔ چینی امداد سے سی پیک کے تحت گوادر کے موجودہ اسپتال کو توسیع دے کر پانچ سو بستروں کا بنایا جارہا ہے ۔ کوئٹہ شہر میں صوبائی حکومت کے تحت چلنے والے بڑے بڑے اسپتال قائم ہیں اس کی وجہ سے سارے ماہر ڈاکٹر کوئٹہ میں موجود ہیں یہاں تک کہ جونئیر ڈاکٹر بھی اپنے گاؤں اور اپنے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے ۔ ان کا یہ جائز اعتراض ہے کہ وہاں صحت عامہ کی سہولیات ہی نہیں ہیں البتہ خاران اور دالبندین میں عرب شیوخ نے دو بڑے اور جدید ترین اسپتال تعمیر کر کے دئیے اور ان کو جدید ساز وسامان سے آراستہ بھی کیا ہے ۔ مگر ان دونوں بڑے اسپتال کو پیرا میڈیکل اسٹاف چلا رہے ہیں یہاں تو کم سے کم اچھے اور اہل ڈاکٹر روانہ کریں ۔ کم سے کم جونئیر ڈاکٹر تین سال ایسے علاقوں میں خدمات سرانجام دیں ۔ اگر کوئی انکار کرے تو اس کو ملازمت سے فوری طورپر برطرف کیاجائے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے ۔ دوردراز رہنے والے لوگوں کا اس ریاست پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی شہر کے رہنے والے کا’ کہ ریاست اس کو بھی وہی اور مناسب سہولیات فراہم کرے ،اس کو امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنائے۔