|

وقتِ اشاعت :   November 12 – 2016

تحفظ خواتین بل کی منظوری کے بعد اب مردوں کے حقوق کے حوالے سے بھی آواز اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔

اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے رکن صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے نام ایک مراسلہ لکھا جسے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا۔

مولانا محمد خان شیرانی کے نام لکھے گئے خط میں صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے گزارش کی کہ ‘پاکستان میں بعض خواتین مردوں پر تشدد کرتی ہیں اور گھر سے نکال دیتی ہیں جبکہ اسلام میں مردوں کے بھی حقوق ہیں جس کی معاشرے میں حق تلفی ہورہی ہے۔’

مراسلے میں مزید لکھا گیا، ‘عوام الناس کا پرزور مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں قرآن و سنت کی روشنی میں مردوں کے حقوق کے لیے بھی سفارشات مرتب کی جائیں، جیسے خواتین کے لیے مستقل تحفظ خواتین بل ہے۔’

مردوں کے حقوق کی تحریک کے حوالے سے جب صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ‘جب تحفظ خواتین بل آیا تو اس کے بعد کچھ مردوں نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ خواتین کو حقوق ملنے چاہئیں، جس کی اجازت اسلام بھی دیتا ہے اور پاکستان کا آئین بھی لیکن ساتھ ہی مردوں کو بھی ان کے حقوق ملنے چاہئیں’۔

مردوں کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ ‘کچھ خواتین اپنے بھائی، والد یا دیگر رشتے داروں کو بلوا کر اپنے شوہروں پر تشدد کرواتی ہیں اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ایسے بہت سے کیسز سامنے آئے ہیں کہ کہیں کسی مرد کے ناخن کھینچ لیے گئے یا ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے گئے اور ان واقعات کے مقدمات بھی مختلف تھانوں میں درج ہیں’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح اگر کوئی مرد عورت کو گھر سے نکال دے تو اس کے لیے تو شیلٹر ہوم موجود ہے لیکن مظلوم مردوں کے لیے حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔

قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ تحفظ نسواں بل میں خواتین کو بہت سے حقوق حاصل ہیں، حتیٰ کہ انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے پر بھی قانون حرکت میں آسکتا ہے، اسی طرح مردوں کو بھی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔

صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے کہا کہ انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن کی حیثیت سے چیئرمین کو خط لکھا کہ قرآن و سنت کی روشی میں مردوں کے حقوق کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جانی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا ‘ہم خواتین کے حقوق کے حامی ہیں لیکن میرٹ پر مردوں کو بھی حقوق دیئے جانے چاہئیں۔’

قاسمی صاحب نے کہا کہ وہ چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے شکرگزار ہیں جنھوں نے ان کی درخواست کو اہمیت دی اور اسے کونسل کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا۔

واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس رواں ماہ 15، 16 اور 17 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے۔

قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران اس حوالے سے بحث ہوگی اور دلائل دیئے جائیں گے، انھوں نے بتایا، ‘اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں، جو اجلاس کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں بات کریں گے تو وہاں بھی ایسے کیسز سامنے آئیں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مردوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ عوام کی ضرورت اور ڈیمانڈ کے پیش نظر کیا اور اس سلسلے میں انھیں کسی این جی او، فرد، ادارے یا تنظیم کی مدد حاصل نہیں۔

آخر میں قاسمی صاحب نے اس امید کا اظہار کیا کہ مردوں کے حقوق کے حوالے سے بھی بل منظور کیا جائے گا۔

صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل آباد کی جامعہ مسجد کے خطیب، پاکستان علماء کونسل کے مرکزی سیکریٹری جنرل، وفاق المساجد پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور تحفظ مدارس دینیہ کے صدر بھی ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں پنجاب اسمبلی نے تحفظ خواتین بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل گرفت ہوں گے۔

بل کے تحت تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا، جبکہ عدالتی حکم پر مرد، تشدد کی شکار خاتون کو تمام اخراجات فراہم کرنے کا پابند ہو گا اور نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے ادا کر سکے گی۔

بل میں رکھی گئی ایک دلچسپ شق کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو 2 دن کے لیے گھر سے نکالا جا سکے گا۔

دوسری جانب پنجاب بھر میں متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے، جبکہ شیلٹر ہومز میں متاثرہ خواتین اور ان کے بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی، جبکہ مصالحت کے لیے بھی سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔

تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو غیر اسلامی اور خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسمبلیوں کو اس قسم کی قانون سازی سے قبل کونسل سے مشاورت کرنی چاہیئے۔

کونسل کی جانب سے اس حوالے سے پنجاب حکومت کو خط بھی لکھا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ بہت سے گھریلو معاملات میں شوہر کی رائے فیصلہ کن ہوتی ہے، شوہر سے اختلاف رائے کی صورت میں بیوی کو سرکاری اداروں سے اپیل کا قانون خاندانی نظام کی روح کے خلاف ہے۔

بعدازاں رواں برس مئی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اجلاس میں تحفظ حقوق نسواں کا مجوزہ بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت شوہر کو بیوی پر معمولی تشدد کی اجازت ہوگی، جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔