|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2016

کراچی: بلوچستان کی قومی تحریک کو کچلنے کیلئے لیاری میں گینگ گروپ تشکیل دیے گئے، لیاری قوم پرست ترقی پسند تحریکوں کا گڑھ رہاہے،بلوچستان کی قومی تحریک میں لیاری مرکزی کردار رہا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کی ماں لیاری کو حقیقی سیاست کی سزاگینگ وار کی شکل میں دیا، بلوچستان اور لیاری کا قومی جدوجہد کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ان خیالات کااظہار سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ،یوسف مستی خان، جبار خٹک، توصیف احمد خان، اختربلوچ، احمداقبال بلوچ، لطیف بلوچ نے کراچی پریس کلب میں ’’لیاری کا مقدمہ‘‘ کتاب کی رونمائی کے موقع پر کیا۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ بلوچستان اور لیاری کا قومی سیاسی رشتہ آج بھی اسی طرح ہے جس طرح ماضی میں رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک منظم سازش کے تحت لیاری میں سیاسی وعلمی ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، لیاری سے بلوچستان کے عوام اور لیڈر شپ نے بیگانگی اختیار نہیں کی ، انہوں نے کہاکہ ایوب خان کی آمریت سے لیکردیگر غیر جمہوری عناصر کے خلاف لیاری نے اول دستہ کا کردار ادا کیا، ہماری سیاست کا محور ہمیشہ لیاری ہی رہا ہے، میں لیاری سے طالب علمی کے دور سے آشنا ہوں اور ہماری سیاسی تربیت بھی یہی ہوئی لالہ لال بخش رند، لالہ صدیق بلوچ، لطیف بلوچ سمیت دیگر نیپ کے رہنماؤں نے ہمیشہ ہماری رہنمائی کی۔ انہوں نے کہاکہ نئی نسل بلوچ قومی تحریک سے اس لیے ناواقف ہے کہ اس پر جامع کتاب کسی نے نہیں لکھا ہماری کوشش ہے کہ اس حوالے سے کام کیاجائے تاکہ ہماری نئی نسل اپنی تاریخ سے آگاہ ہوسکیں۔ انہوں نے ’’لیاری کا مقدمہ‘‘ کتاب کے مصنف لطیف بلوچ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ ہم ایسے عمل کیلئے مالی وعلمی تعاون کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ورکرپارٹی کے مرکزی رہنماء یوسف مستی خان نے کہاکہ لیاری میں جب گینگ وار خون کی ہولی کھیل رہے تھے اس وقت بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ہم نے ہر فورم پر گینگ وار کے خلاف آواز اٹھائی مگر لیاری کی قربانیوں کے بدلے بلوچستان کے لیڈران نے بیگانگی اختیار کی جو کہ زیادتی ہے۔ یوسف مستی خان نے کہاکہ گینگ وار کے کارندوں نے ہمارے محسنوں کی تذلیل کی اسکولوں کو جلایا قوم پرست ترقی پسند سیاست کرنے والوں کو دھمکیاں دیں بعض لوگوں نے عزت نفس مجروع ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کی ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیشہ حقیقی سیاست کرتے ہوئے جیل کی صعوبتیں کاٹی کسی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا جس کی پاداش میں ہمیں پسماندہ رکھا گیا۔ سینئر صحافی جبار خٹک نے کہاکہ لیاری کراچی کی ماں ہے لسانیت سے بالاتر ہوکر لیاری کے باشندوں نے سیاست کی مگر لیاری کے تشخص کو آبادی کے ذریعے متاثر کیاگیا، کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر نہیں بلکہ بلوچوں سمیت دیگر زبان بولنے والی قومیت کی بڑی تعداد کراچی میں آباد ہے مگر جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے لیاری کے ساتھ اپنی روش اپنائی وہ انتہائی ظالمانہ رہا ہے ، جبار خٹک نے کہاکہ لیاری کو اس لیے پسماندہ رکھا گیا کہ انہوں نے بلوچستان کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے جب بھی بلوچستان میں سیاسی تحریکیں چلی تو لیاری نے صفِ اول کا کردار ادا کیا اس لیے روز اول سے لیکر آج تک لیاری کو مختلف طریقوں سے مشکلات میں ڈالاگیا تاکہ وہاں قوم پرستی وترقی پسندانہ سوچ کا خاتمہ ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ لیاری میں گینگ وار کے خلاف جو آپریشن کیا گیا درحقیق وہ لیاری کے عوام کو ایک اور مصیبت میں ڈالنے کی کوشش کی گئی جبکہ پاکستان مردہ باد کہنے والوں کے خلاف مہذبانہ طریقے سے آپریشن کیا گیا جو سب کے سامنے ہے۔ سینئر صحافی توصیف احمد خان نے کہاکہ لیاری کی سیاسی تاریخ سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے لیاری کے عوام نے غیر جمہوری عناصروں کے خلاف بھرپور تحریکیں چلائی بلوچستان کے مسائل کو دنیا بھرمیں اجاگر کرنے کیلئے لیاری نے اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو متحرک کیا اور ان کے مدمقابل کھڑا کیا، انہوں نے کہاکہ ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ لیاری کی قربانیوں کا صلہ انہیں کبھی نہیں دیا گیا جب بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اقتدار میں آئی تو انہوں نے لیاری کو مکمل نظر انداز کیا اور انہوں نے پیپلزپارٹی ودیگر جماعتوں سے وابستگی اختیار کی مگر لالہ لال بخش رند ودیگر شخصیات اپنی نظریات پر مرتے دم تک ڈٹے رہے ۔ انہوں نے کہاکہ نیپ جیسی تحریکیں مسلسل چلتی رہتی طلباء تنظیمیں سرگرم رہتی تو شاید آج لیاری کا نقشہ کچھ اور ہوتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ ان تحریکوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ لیاری کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا گیا بلوچستان میں جب سیاسی تحریک شروع ہوئی تو لیاری میں گینگ گروپ تشکیل دیے گئے اور لیاری کے سماجی ڈھانچے کو مکمل تبدیل کردیا گیا جس کے بعد لیاری تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ پروفیسر اختر بلوچ نے کہاکہ اگر ہم مفاہمت کی سیاست کرتے تو آج ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے ہماری اپنی کمزوریاں بھی ہیں ، گینگ وار کے مرکزی کرداروں کے خاتمے اور گرفتاریوں کے باوجود ان کے کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں اوربعض نوجوانوں کی ذہنیت میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ وہی غنڈہ گردی کی سوچ ہے۔ اختر بلوچ نے کہاکہ لیاری میں اب میڈیکل کالج ودیگرتعلیمی اداروں کے بننے کی وجہ سے بعض نوجوان تعمیری سرگرمیوں میں مصروف ہیں اگر پھر کوئی سازش نہیں کی گئی تو امید ہے کہ یہی سے ڈاکٹرز سمیت دیگر شعبے میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوان پیدا ہونگے۔ وش نیوز کے سی ای او احمد اقبال بلوچ نے کہاکہ لیاری آپریشن ایک ڈرامہ تھا صرف لیاری کے باشندوں کو تکلیف دینے کیلئے یہ سب کچھ کیا گیا اگر واقعی آپریشن ہوتا تو گینگ وار کے کارندے متاثر ہوتے نہ عام لوگ پانی بجلی راشن کیلئے ترستے رہتے۔ انہوں نے کہاکہ آج کراچی آپریشن کی کامیابی کی بات کی جارہی ہے اس وقت کیوں ایسا آپریشن نہیں کیا گیا کہ گینگ وار کا خاتمہ ہوتا، بزنجو چوک پر بم دھماکے سے معصوم بچے شہید ہوئے ان کی داد رسی آج تک نہیں کی گئی آج بھی لیاری کی ماں بہنیں اپنے پیاروں کے قتل کرنے والوں کے خلاف انصاف کے منتظر ہیں۔’’لیاری کا مقدمہ ‘‘کتاب کے مصنف سینئر صحافی سیاسی رہنماء لطیف بلوچ نے کہاکہ میری کوشش تھی کہ میں لیاری کی تاریخی اہمیت کو اپنی کتاب میں اجاگر کروں اور لیاری کے اصل منظر کشی کروں تاکہ لوگ لیاری سے حقیقی معنوں میں واقف ہوسکیں جس میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مالی معاونت کا شکار گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ لطیف بلوچ نے کہاکہ لیاری میں گینگ وار مائنڈ سیٹ اب بھی موجود ہے جو آسانی سے ختم نہیں ہوگا اس کیلئے منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے طاقت کے ذریعے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے کہاکہ مذاکرات کے ذریعے ہی ہم بلوچستان کے مسئلے کو حل کرسکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ مقررین نے ’’لیاری کا مقدمہ‘‘ کتاب پر کہاکہ لطیف بلوچ کی کاوش قابل تحسین ہے جس نے لیاری پر کتاب لکھا اور اس کے مختلف پہلوؤں کا اجاگر کیا جس سے عوام رہنمائی حاصل کرینگے۔ کتاب کی رونمائی کے موقع پر سیاسی،سماجی،ادباء،شعراء ،صحافیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔