|

وقتِ اشاعت :   December 3 – 2016

عہدہ صدارت پر آخری ایام گزارنے والے امریکی صدر براک اوباما نے ایک بار پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن کئی وجوہات کی بناء پر وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامعہ نہ پہنا سکے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جوش ایرنسٹ نے نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’امریکی صدر اوباما کئی وجوہات کی بناء پر پاکستان کا دورہ نہ کرسکے اور ان میں سے ایک وجہ گزشتہ 8 برس کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں رہنے والی پیچیدگی بھی ہے‘۔ نیوز بریفنگ کے دوران یہ معاملہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے سامنے آیا جس میں انہوں نے پاکستان جانے کی خواہش کا بھی اظہارکیا تھا۔ جوش ایرنسٹ نے کہا کہ ’بالآخر جب بطور صدر ٹرمپ اپنے بین الاقوامی دوروں کی منصوبہ بندی کریں گے تو ان کے پاس مختلف ممالک کی طویل فہرست موجود ہوگی اور یقیناً پاکستان بھی ان میں سے ایک ہوگا‘۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کردی ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی صدر کے دورے سے اس ملک کے عوام کو ایک طاقتور پیغام پہنچتا ہے چاہے وہ کوئی قریبی اتحادی ملک ہو یا پاکستان جیسا کوئی ملک ہو جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ذرا پیچیدہ نوعیت کے ہیں‘۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 9 نومبر کو ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے انہیں صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تھی۔ نو منتخب امریکی صدر نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کو سراہا تھا اور جلد ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس گفتگو میں ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تعمیری تعلقات کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ نواز شریف اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والے اس رابطے نے امریکی دارالحکومت میں اپوزیشن ڈیموکریٹس اور میڈیا کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرائی تھی جنہوں نے امریکی حکام سے مشاورت کے بغیر بین الاقوامی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کرنے پر ٹرمپ کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے بھی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ان کی ٹیلیفونک گفتگو کا اپنا ورژن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ‘مثبت گفتگو’ ہوئی لیکن پاکستانی ورژن میں بہت ‘خوشنما زبان’ استعمال کی گئی۔ ٹرمپ کی ٹیم کے ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ تنازعات کے حل میں ‘کردار’ ادا کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کی پیشکش کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکریٹری اری فلائیسر کا بھی کہنا تھا کہ ‘پاکستانی حکومت کے لیے نومنتخب صدر کی ٹیلیفونگ گفتگو کو جاری کرنا انتہائی نامناسب تھا’۔ اری فلائیسر، جو اس سے قبل سابق ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی وائٹ ہاؤس ٹیم کا حصہ اور ٹرمپ کی ٹیم سے بھی قریب ہیں، کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت اس طرح کی پریس ریلیز جاری نہیں کرتی۔