بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہے۔ خشک سالی کا ایک سلسلہ ہے جوسالوں سال چل رہی ہے ۔ خشک سالی اور قحط کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے گھروں سے ہجرت کرتے ہیں اور پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ایک ہماری حکومت ہے جس کی دلچسپی سڑکیں اور عمارات بنانے پر ہے ۔ صوبے کی بجٹ کاایک بڑا حصہ ان دو شعبوں پر خرچ ہورہا ہے۔ پانی کے وسائل کو ترقی دینے کے منصوبے خال خال نظر آتے ہیں ۔ چھوٹے ڈیموں کا منصوبہ بھی سست روی کا شکار ہے۔ وفاق نے وعدہ کیا تھا کہ یہ وہ صوبے میں 200چھوٹے ڈیم تعمیر کرے گا مگر سالوں گزر گئے یہ ڈیم نظر نہیں آتے۔ ابھی تک ان منصوبوں کے فوائد لوگوں تک نہیں پہنچ سکے ہیں اس کی وجوہات وفاقی حکومت بتائے۔ دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری نے لسبیلہ میں ایک بڑے ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا تھا کہ خلائی نظام سے اس منصوبے پر نگاہ رکھیں گے کہ کام کس رفتار سے جاری ہے ۔ آج تک اس ڈیم سے متعلق کوئی بات سنائی نہیں دیتی ۔ اسی طرح کچی کے میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے جھالا وان سے آنے والے دریا پر بند باندھنا تھا ۔دونوں منصوبے سست روی کا شکار ہیں اگر وہ بند نہیں کیے گئے ہیں کیونکہ یہ پی پی کے منصوبے تھے اور ن لیگ کی حکومت ان پر عمل درآمدنہیں کرے گی۔ بہر حال بلوچستان کے تمام منصوبے سالوں کے لئے نہیں دہائیوں کے لئے ہوتے ہیں اور وفاق کوبلوچستان کو ترقی دینے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے نہ ہی منصوبہ بندی کمیشن میں بلوچستان کی کوئی موثر نمائندگی ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ بلوچستان کی تقریباً ڈہائی لاکھ ایکڑ زر خیز اور سرسبز اور شاداب زمین سیم اور تھور کی وجہ سے تباہ ہوگئی ہے ۔ وجہ حکمرانوں کی نا اہلی اور بلوچستان کے معاملات میں بے حسی اور کاہلی ہے ۔ چالیس سال قبل پٹ فیڈر تعمیر کیا گیا تھا پٹ فیڈر کو شاہ پور کے ریگستان سے گزارا گیا ۔ نہر ریتلی زمین اور ریگستان سے گزارا گیا ۔ یہ حصہ اندازاً تیس میل سے کچھ زیادہ ہے ۔نہری پانی سے ریتلی زمین نیچے دھنسنا شروع ہوگیا ۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین سو کیوسک پانی اس جگہ سے رستا ہے ۔ اور یہ پانی صحبت پور میں پہنچ کر تباہی مچاتا ہے اس زیر ین علاقے میں یہ پانی سیم اور تھور کا سبب بنا ہے ۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ابھی تک ڈہائی لاکھ ایکڑسرسبز اور شاداب زمین تباہ ہوگئی ۔اس زمین کے مالکان جو کبھی امیرہوا کرتے تھے اب گھر گھر روٹی کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ کل کے بڑے اور مقبول زمین دار آج دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے نظر آرہے ہیں حکومت نے اس زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کا منصوبہ بنایا اور یہ نکاسی آب کا منصوبہ تھا پہلے دور میں فوجی حکمرانوں نے سیم کا پانی کھیرتھر کینال میں ڈالنا شروع کیا اور جب احتجاج زیادہ ہوا اور لوگ بیمار ہونے لگے تب سیم کا پانی نہر میں ڈالنا بند کردیا۔ اس کے لئے حکومت پاکستان نے دریائے سندھ کا آؤٹ فال RBODبنایا، اس کے کچھ حصے پر بلوچستان میں کام ہوا لیکن حالیہ دنوں میں سندھ نے اس سیم کے پانی کو صوبائی سرحد پر روک دیا اس کی وجہ شاید مقامی زمینداروں کی شکایات تھیں ۔ بہر حال RBODکا منصوبہ بلوچستان سے سیم زدہ پانی کو سمندر تک لے جانا ہے جس سے ان تمام زمینوں کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔ بلوچستان کی حکومت اس اسکیم میں دلچسپی لے ۔ وفاق اور سندھ حکومت سے بات کرے کہ یہ منصوبہ جلد سے جلد مکمل ہو ۔ اور ساتھ ہی حکومت بلوچستان ریگستانی علاقے میں پٹ فیڈر کو دوبارہ تعمیر کرے تاکہ نہری پانی ضائع نہ ہو ۔