کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع پشین میں پولیس اور حساس ادارے نے خفیہ اطلاع پر کئے گئے آپریشن میں سانحہ سول اسپتال خودکش بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ سمیت پانچ دہشتگردوں کو ہلاک کردیا۔فائرنگ کے تبادلے میں حساس ادارے کے دو اہلکار بھی زخمی ہوگئے ۔ خودکش جیکٹس ، بھاری مقدار میں دھماکاخیز مواد اور اسلحہ برآمد کرلیا گیا۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ہلاک دہشتگردوں کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی، تحریک طالبان پاکستان اور جیش الاسلام سے ہے جو ملکر بھارتی اور افغان خفیہ اداروں کے دیئے گئے اہداف پر کارروائیاں کرتے تھے۔ سیکورٹی حکام کے مطابق پشین کی تحصیل حرمزئی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریباً تین بجے حساس ادارے نے ایک گرفتار ملزم کی نشاندہی پر سی ٹی ڈی اے اور پولیس کے ہمراہ میں ایک زیر تعمیر مکان پر چھاپہ مارا۔ کارروائی میں قلعہ عبداللہ اور پشین لیویز فورس، پولیس کے علاوہ ایف سی کی مدد بھی لی گئی اور پورے علاقے کو سیل کرکے ہر قسم کی آمدروفت بند کردی گئی تھی۔ فورسز نے مکان کو محاصرے میں لیا اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو مکان کے اندر موجود دہشتگردوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ فورسز نے بھی بھر پور جوابی کارروائی کی۔ فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا اور بالآخر فورسز بکتر بند گاڑیوں کے ہمراہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں پانچ دہشتگرد مارے گئے جبکہ دو سیکورٹی اہلکار بھی فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں پچیس سالہ ریاض احمد اور اٹھائیس سالہ فضل الرحمان شامل ہیں جن میں ریاض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے انہیں سر پر گولی لگی ہے۔ دونوں زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا۔ آپریشن کے دوران کمپاؤنڈ سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور تیس سے چالیس کلو گرام دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا جبکہ دس کمروں پر مشتمل زیر تعمیر کمپاؤنڈ کو مسمار کردیا گیا۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق کارروائی کے دوران ایک سہولت کار سمیت متعدد افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ہلاک ہونیو الے دہشتگردوں کی لاشیں سول اسپتال پشین اور اس کے بعد کوئٹہ کے سول اسپتال منتقل کردی گئیں۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کوئٹہ میں صوبائی سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر محمد اکبر حریفال، آئی جی پولیس بلوچستان احسن محبوب، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ منظور سرور چوہدری ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ اعتزاز احمد گورائیہ کے ہمراہ ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ سانحہ آٹھ اگست ہمارے لئے بڑا چیلنج تھا ،اس میں درجنوں بے گناہ وکلاء کو شہید کیا گیا ۔ پولیس اور سیکورٹی ادارے شب و نوروز اس سانحہ میں ملوث عناصر کے کھوج میں مصروف تھے اس سلسلے میں دس قبل اہم کامیابی ملی اور خودکش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ۔ اس کا ڈی این اے اپنے خاندان والوں سے سو فیصد میچ کرگیا ۔ خودکش حملہ آور کا نام احمد علی ولد سجاد ہے جو کوئٹہ کے کلی دیبہ کا رہائشی تھا۔ اس کارروائی کے بعد پولیس اور سیکورٹی اداروں نے مسلسل محنت کی اور پشین کی تحصیل حرمزئی میں خفیہ اطلاع پر ایک کمپاؤنڈ پر چھاپہ مارا ۔ آپریشن رات تین بجے شروع ہوا جو علی الصبح ختم ہوا اس دوران شدید فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں دو اہلکار زخمی ہوئے جن میں ایک کی حالت تشویشناک ہے ۔ فائرنگ کے تبادلے میں پانچ دہشتگرد مارے گئے جن میں تین کی شناخت ہوگئی۔ ان میں جہانگیر عرف محمد عرف بزرگ عرف امیر صاحب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا اہم کمانڈر تھا جس نے آٹھ اگست کو کوئٹہ کے علاقے اسپنی روڈ پر بلال انور کاسی کو خود جاکر شہید کیا۔ ٹارگٹ کلنگ کی اس وارداتوں میں ملوث ان کے باقی دو ساتھی بھی آج کے آپریشن میں مارے گئے۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہلاک دہشتگرد کوئٹہ اور گردونواح میں دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں ملوث تھے۔لاء کالج کوئٹہ کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی ، کرانی روڈ پر بس میں سوار چار ہزارہ خواتین ، اکتوبر میں کوئٹہ کے سبزل روڈ پرتین ایف سی اہلکاروں اور رمضان المبارک میں مسجد میں سجدے کی حالت میں انسپکٹر مشتاق کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اسپنی روڈ پر زائرین اور سریاب روڈ پر صوبائی وزیر معدنیات سردار سرفراز ڈومکی کے قافلے پر حملے میں بھی یہ دہشتگرد ملوث تھے۔ رواں سال نواں کلی میں بینک ڈکیتی اور مزاحمت پر سیکورٹی گارڈ کو شہید کرنے اور 2014ء میں رئیسانی روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کی چوکی پر دستی بم حملہ بھی انہی دہشتگردوں نے کیاتھا۔ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ دہشتگردوں کے زیر استعمال مکان میں خودکش جیکٹس اور بم بنانے والی فیکٹری قائم تھی ۔ کارروائی کے دوران چار خودکش جیکٹس، تیس سے چالیس کلو دھماکا خیز مواد،بم بنانے والے آلات اور بھاری مقدارمیں اسلحہ برآمد کیا گیا۔ دہشتگرد یہاں خودکش جیکٹس اور دیسی ساختہ بم خود بنانے تھے اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سانحہ آٹھ اگست ہمارے لئے بڑا چیلنج تھا اور آج ہم اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہماری پولیس ، انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑیں ۔ ہم یہ جنگ آخری دہشتگرد کی موجودگی تک لڑتے رہیں گے اور یہ ناسور ختم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی طرح کامیابیاں عطا کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاک دہشتگردوں میں تین کی شناخت ہوئی اور تینوں مقامی ہیں جبکہ باقی دو افراد کی اب تک شناخت نہیں ہوئی۔ یہ دہشتگرد لشکر جھنگوی العالمی، تحریک طالبان پاکستان، جیش الاسلام سے تعلق رکھتے تھے اور ملکر کارروائیاں کرتے تھے۔ انہوں نے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ادارے ’’این ڈی ایس‘‘ کی ایماء پر اتحاد بنا رکھا تھا اور انہی کیلئے کام کرتے تھے۔ یہی غیر ملکی خفیہ ادارے انہیں اہداف اور فنڈز دیتے تھے اورکاررائی کے بعد ’’را ‘‘اور این ڈی ایس انعامات دیتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ عالمی دہشتگرد تنظیم کا بلوچستان میں کوئی منظم وجود نہیں۔ آج کی اس کارروائی سمیت جب بھی بلوچستان میں دہشتگرد مارے جاتے ہیں ان کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی، ٹی ٹی پی اور جیش الاسلام سے نکل آتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ داعش کی جانب سے کوئٹہ اور بلوچستان میں دہشتگرد واقعات کی ذمہ داری کی قبولیت جھوٹ ہے ۔لشکر جھنگوی، ٹی ٹی پی اور جیش کا داعش سے براہ راست کوئی لنک نہیں۔ را اور این ڈی ایس ایک خاص مقصد کے تحت داعش سے واقعات کی ذمہ داری قبول کراتی تھی تاکہ اپنی ناپاک کارروائیوں پر پردہ ڈالا جاسکے اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہاء کیا جائے۔ لشکر ، ٹی ٹی پی اور جیش کے دہشتگردوں کی تصاویر داعش کو وٹس اپ کرکے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے اورسرحد کی مشکل صورتحال کے باوجود ہمارے ادارے بہت اچھے طریقے سے کام کررہے ہیں ۔ ہماری فورسز کے مورال اور صلاحیت و استعداد کا اندازہ آج کی کارروائی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان پولیس نے ثابت کردیا کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پولیس اور سیکورٹی اداروں نے کوئٹہ کو بہت بڑی تباہی سے بچایا ہے ۔ ان کارروائیوں کی تفصیل کسی اور دن عوام کے سامنے لائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے یہ بھی بتایا کہ پشین میں آپریشن کی نگرانی وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری بیرون ملک سے خود کررہے تھے ۔ انہوں نے کامیاب کارروائی پر سیکورٹی اہلکاروں کو سراہا ہے ۔