|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2016

اس میں دو رائے نہیں کہ کوئٹہ کی تنگ وادی اب مزید آبادی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اس شہر نا پرساں میں پانی کی ضروریات صرف نصف آبادی کو حاصل ہے۔ اسی پانی سے کھیتوں اور سبزیوں کی کاشت ہورہی ہے اور اسی پانی سے کارخانے اور تجارتی ادارے بڑے اور چھوٹے سب چل رہے ہیں۔ ان کے لئے الگ انتظام نہیں کیا گیا۔ 70سال گزرنے کے بعد بھی گندے پانی کو دوبارہ استعمال میں لانے کی دانستہ کوشش نہیں کی گئی جس سے قلت آب کا مسئلہ مزید سنگین بن گیا ہے ۔ جتنے حکمران آئے ان کی دلچسپی اپنے ذاتی اور گروہی معاملات سے تھی۔ ان کی توجہ کبھی عوامی معاملات اور مشکلات کی طرف نہیں رہی، اس لئے کوئٹہ کے معاملات زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوگئے۔ اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ کوئٹہ کی صحت افزاء وادی کو ایک بڑی کچھی آباد میں تبدیل کردیا گیا۔ اس میں ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے باعث ہر شخص نے اپنا ٹرانسپورٹ خرید لیا۔ غریب ترین لوگوں نے سائیکل، اس سے بہتر آمدنی والوں نے موٹر سائیکل اور بہتر زندگی گزارنے والوں نے گاڑیاں خریدلیں۔ شہر میں گاڑیوں کی تعدادا بڑھانے کے لیے حکومت بلوچستان نے اپنے افسروں کو ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں مفت پیٹرول کے ساتھ فراہم کردیں۔ وزراء کے پاس گاڑیوں کا پورا فلیٹ موجود ہے بلکہ ان کے محافظ بھی اچھی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اس بدنظمی کی وجہ سے کوئٹہ شہر کے تجارتی مراکز میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ کوئٹہ شہر میں 50ہزار کے لگ بھگ موٹر رکشوں کو لائسنس دیئے گئے ہیں۔ لہٰذا کوئٹہ کے مرکزی تجارتی علاقوں میں ہر روز گھنٹہ بھر ٹریفک جام رہتا ہے جس سے کروڑوں گیلن پیٹرول روزانہ ضائع ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی طرف سے آبادی کا زبردست یلغار پاکستان کا رخ کررہا ہے اس میں کوئٹہ اور پشاور خصوصی ٹارگٹ ہیں۔ افغانستان کی بڑی آبادی کا رخ کوئٹہ کی طرف ہے اس کا سلسلہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے شروع کیا تھا اور 1970کی ابتدائی سالوں میں حکومت پاکستان نے افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے کے خلاف اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا اور خان عبدالصمد خان نے ان افغان خاندانوں کو آباد کرنے کے لیے پشتون آباد کی بنیاد ڈالی ۔ اس میں ریاست پاکستان کی مرضی شامل تھی، اس دن سے لے کر آج تک بلوچستان میں افغان تارکین وطن کی ریاستی طور پر سرپرستی ہورہی ہے۔اور اس میں پاکستان کی بڑی بڑی مذہبی پارٹیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ ایسی صورت حال میں شہری سہولیات پر آئے دن دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کوئٹہ افغانستان سرحد کے قریب ترین شہر ہے جہاں پر ذرائع زیست دوسرے شہروں سے زیادہ ہیں۔ اس لئے کوئٹہ ایک ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔ بعض افغانستان کے حمایتی کوئٹہ کو ایک پاکستانی شہر نہیں افغان شہر بنانا پسند کریں گے اس لئے یہ عناصر افغان غیر قانونی تارکین کی حمایت کررہے ہیں اور وزراء یہ اعلان کررہے ہیں کہ افغان باشندے اپنی سرزمین پر ہیں۔ ریاستی اداروں کے لئے یہ وارننگ کافی ہے۔ کوئٹہ گیریژن ٹاؤن تھا جس کو افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے استعمال میں لایا جاتا رہا۔ حالات تبدیل ہوگئے ہیں بلوچوں کی افغانوں کے خلاف کوئی فارورڈ پالیسی نہیں ہے نہ ہی بلوچ افغانستان کے علاقوں پر دعوے کررہے ہیں۔ لہٰذا بلوچستان کو کسی فارورڈ پوزیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بلوچ اور افغان ملت کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو پراکسی وار چل رہی ہے بلوچ اس کا حصہ نہیں ہیں۔ اس سے نہ صرف لاتعلق ہیں بلکہ اس کے مخالف ہیں۔ کوئٹہ پراکسی جنگ کا مرکز بنتا جارہا ہے جو بلوچستان کے لیے خطرناک بات ہے ۔سیکورٹی کی صورت حال کے پیش نظر اور مستقبل کی معاشی سرگرمیوں کی بدولت یہ ضروری ہوگیا ہے کہ صوبائی حکومت ابھی سے اپنے لئے نیا دارالخلافہ تلاش کرے جو گوادر اور چاہ بہار کی دو یا تین بڑی بندرگاہوں کے قریب ہو اور زیادہ مناسب کسی بڑے دریا کے دہانے پر ہو۔ اربوں ڈالر تجارت کے مرکز کے قریب ہی نیا اور جدید دارالخلافہ تعمیر کیا جائے۔