اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ آنے والے وقت میں بہتری کی امید نظر نہیں آتی ، اداروں میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کے موضع پر خطاب کرتے ہوئے کیا، ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کے تمام فاضل جج صاحبان اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کے علاوہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدور نے شرکت کی، ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اسلام انسانیت کے علمبردار ،محبت اور امن کا مذہب ہے، بدقسمتی سے اسلام کو مختلف وجوہات کی بناء پر پوری دنیا میں بدنام کیاگیا ہے، قانون کی حکمرانی کیلئے اداروں میں ہم آہنگی اور مضبوطی ضروری ہے، ملک میں ہرطرف افراتفری ، بد انتظامی اور نا انصافی کا دور دورہ ہے، آنے والے وقت میں بہتری کی امید نظر نہیںآتی، کیونکہ اداروں میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کا بازارگرم ہے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کاکہنا تھا کہ میں نے ناانصافی اقرباء پروری اور بدعنوانی کے تدارک میں کردارادا کرنے کی کوشش کی، اب وقت بتائے گا میں اپنی کوششوں میں کتنا کامیاب ہوا بد انتظامی اور افراتفری سے عوام کو ناقابل تلافی نقصان کاسامنا ہے، بے حسی اور نا امیدی کا احساس تباہی کا سبب بن سکتا ہے، ہمیں اپنی توانائیاں ملک کی بہتری کیلئے صرف کرنی چاہئے، حقوق کی بات کرنے والے اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، جب کہ اکثر سرکاری ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام نظر آتے ہیں، بطور چیف جسٹس ہر شخص کی جانب سے تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں اللہ اس ادارے کو دوام اور استحکام بخشے ،اللہ کے فضل سے پاکستان کی عدلیہ آزاد اور آئندہ بھی اپنی آزادی برقرار رکھے گی ،جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اللہ عزوجل یعنی خالق کائنات کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے میرے پاس وہ الفاظ نہیں جس سے میں رب العزت کی ثناء بیان کرسکوں اللہ نے مجھ ناچیز کو دنیاوی لحاظ سے اتنا نوازا ہے انہوں نے کہا کہ مقررین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے بارے تعریفی کلمات ادا کئے قانون و انصاف کے شعبے سے میری وابستگی چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط ہے چوبیس سال سے زائد عرصہ تک میں نے بطور وکیل اور اٹھارہ سال سے زائد عرصہ تک اعلیٰ عدلیہ میں بطور جج اپنے فرائض سرانجام دیئے غلطی تقاضا بشر ہے کہ کوئی بھی شخص نہ تو عقل کُل ہے اور نہ ہی غلطیوں سے مبرا ہوتا ہے مجھ سے بھی یقیناً کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی مگر میرا ضمیر مطمئن ہے میں نے ہر مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر نیک نیتی سے فیصلہ کروں ۔ کوشش کی کہ نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرسکوں بلکہ حقدار کو اس کا حق بھی دلواؤں انہوں نے کہا کہ میرے فیصلے آپ لوگوں کے سامنے موجود ہیں اور آپ لوگ ان سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں آئین کی بالادستی اور حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ ادارے نہ صرف مضبوط ہوں بلکہ ان میں مکمل ہم آہنگی ہو ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ میں اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب نہ ہوسکا ہوں انہوں نے کہاکہ اپنی استطاعت کے مطابق نہ صرف عدلیہ کو بلکہ دیگر حکومتی اداروں کو بھی مضبوط کرنے اور ان میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے کی مکمل کوشش کی ہے انہوں نے کہا کہ ملک کی اسلامی تشخص کے حوالے سے میرے کچھ خیالات اور نظریات ہیں جن کا ماضی میں کئی بار ذکر کرچکا ہوں اسلام درحقیقت اس دنیا کے مذہب میں سب سے زیادہ جدید سہل انسانیت کا علمبردار ، محبت اخوت اور امن کا مذہب ہے انہوں نے کہا کہ بدقستمی سے ہم نے اپنے باہمی اختلافات تنگ نظری تفرقہ بندی اور عدم بداشت کی بناء پر اور بیرونی سازشوں کا حصہ بن کر پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماضی کی فحش غلطیوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا جس کے سبب ہم نے نہ صرف اپنا آدھا وطن عزیز گنوا دیا بلکہ محبت کرنے والے اپنے کروڑوں بھائیوں کو بھی کھو دیا آج ملک میں ہر طرف افراتفری تفرقہ بندی اقربا پروری بدانتظامی اور معاشی ناانصافی کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے اس ملک کو اور اس کے عوام کو نہ قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے نتیجتاً عوام میں بے حسی اور نا امیدی کا احساس پروان چڑھ رہا ہے جو کسی بھی قوم کیلئے ایک تباہی کا سبب بن سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ملک میں آج ہر شخص اپنے حقوق کی بات کرتا ہے مگر اپنی ذمہ داریوں کے اداراک اور فرائض کی ادائیگی سے بالکل بہرا ہے اکثر سرکاری ادارے بھی مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں ہمیں بحیثیت قوم تمام برائیوں کا سدباب کرنا ہوگا جب تک ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتے آنے والے وقتوں یں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی آج والدین کا ذکر نہ کروں تو میری کم عقلی اور احسان فراموشی ہوگی یہ ان دعاؤں کا طفیل ہے اللہ نے ملک کی خدمت کیلئے اہم عہدے پرفائز کیا آج ہم مکمل اطمینان قلب کے ساتھ رخصت ہورہا ہوں ۔