بلوچستان ملک کا وہ واحد پسماندہ اور بے آواز صوبہ ہے جس کی تمام ضروریات کو دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا ہے ۔تاہم یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سوراب۔ ہوشاب سڑک صرف دو سال اور تین ماہ کے قلیل عرصے میں جنگی بنیادوں پر تعمیر کردی گئی جس کا افتتاح وزیراعظم نے تربت میں کیا۔ اس پر 22ارب لاگت آئی ہے اور یہ 449کلومیٹر طویل ہے۔ اس سے قبل مکران کا پورے ملک کے ساتھ سڑک کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ کچھی سڑک موجود تھی جس کو لوگ صدیوں سے استعمال کرتے آرہے تھے۔ اس سے پہلے یہ اونٹوں اور گدھوں کی گرزگاہ تھی کیونکہ لوگ سفر کے لئے صرف اونٹ اور گدھے استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد موٹر ٹرانسپورٹ آیا۔ یہاں کچی سڑکوں پر بس اور ٹرک کی سروس شروع ہوئی۔ یہ نئی بسیں اور ٹرک صرف چند سالوں کے لئے ہوتی تھیں بس اور ٹرک مالکان دوسرے ذرائع استعمال کرکے اتنی رقم کمالیتے تھے کہ پہلے ناکارہ بس اور ٹرک تبدیل کرلیتے تھے۔ ان بسوں اور ٹرکوں میں ایران سے اسمگل شدہ سامان کی ترسیل سرحدی محافظین کی مدد سے ہوتی تھی۔ جب پہلی بار گوادر پورٹ سے کھاد کو کراچی یا ملک کے اندر لے جانے کی ضرورت پڑی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ نے حکم دیا کہ مقامی طور پر ٹرکوں کو کرایہ پر حاصل کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کو اس کا فائدہ پہنچے۔ تلاش کرنے کے بعد حکام کو صرف 100کے لگ بھگ ٹرک ہاتھ لگے اور سینکڑوں ٹرک ملک کے دیگر حصوں سے حاصل کئے گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مکران اور اس کے تمام ملحقہ علاقوں میں سڑکیں ہی موجود نہیں تھیں کہ کوئی ٹرانسپورٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کرے۔ بلوچستان پورے پاکستان کا نصف ہے اس کے مقابلے میں یہاں سڑکیں 10فیصد علاقوں میں موجود ہیں۔ زیادہ اہم ترین شہروں اور قصبوں کو ملاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کو صرف چند ایک بین الصوبائی اور بین الاقوامی شاہراہوں سے قدرے دلچسپی تھی۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے سڑکوں کا جال بچھانا مقصود نہیں تھا۔ اس کی زندہ مثال آر سی ڈی ہائی وے ہے جو گزشتہ 65سالوں سے زیر تعمیر ہے 65سالوں میں یہ مکمل ہوکر نہیں دیا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ہاں اس کی اہمیت ہی نہیں ہے کہ ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے بہتر تجارتی رابطے ہوں۔ یہ سڑک مارشل پلان کے تحت بنائی جانی تھی جس کا مقصد کراچی کو تہران کے ساتھ آر سی ڈی ہائی وے کے ذریعے ملانا تھا۔ پہلے اس کا نام (سنٹو) Centoتھا۔ اس سڑک کی سنٹو فوجی معاہدے کی تحت زبردست اہمیت تھی۔ عراق اور بعد میں ایران کے انقلاب کے بعد یہ فوجی معاہدہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی کہ اس کو بین الاقوامی تجارتی شاہراہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس طرح سے بلوچستان کی سڑک کی ضروریات پوری نہیں کی گئیں جس سے تجارتی اور صنعتی ترقی ہوتی۔ تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ اب مکران کو سڑک کے راستے صوبے کے دوسرے حصوں سے ملادیا گیا۔ یہ سی پیک سے زیادہ اہم پروجیکٹ ہے کہ سوراب۔ہوشاب ہائی وے سے لوگوں کو آمدورفت کی سہولیات فراہم ہوں گی۔ لوگ بس، کار، وین اور ٹرک کے ذریعے مکران تک سفر کرسکیں گے اور تجارت کرسکیں گے۔ امید ہے اس سڑک کے افتتاح سے صوبائی معیشت میں تیزی آئے گی ،ترقی کا معیار زیادہ پائیدار ہوگا اور عوامی یکجہتی میں اضافہ ہوگا۔ اس سڑک کا سی پیک کے خیالی منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان میں صنعتی اور تجارتی ترقی کے دور دور تک نشانات نہیں ہیں کیونکہ نہ پیداوار ہے اور نہ ہی تجارتی ساماں جو گوادر کی بندرگاہ کو استعمال میں لائے۔ اسی سڑک سے سی پیک کا قافلہ تین دن میں کوئٹہ سے گوادر پہنچا۔ ہمارے نوجوان اپنی گاڑی میں 10گھنٹوں میں گوادر سے کوئٹہ پہنچ گئے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ سفر کے لیے یہ سڑک موزوں ہے اور تجارتی راہداری کے لیے یہ مشکل راستہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں؟ یہ ہم کو نہیں معلوم۔ بہر حال یہ وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر میں تیزی لائے تاکہ صوبہ زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرے۔ تمام فنڈز وفاق فراہم کرے تاکہ بلوچستان میں بھی موٹر وے تعمیر ہوں۔ ریل کا بہتر نظام ہو جس کے لیے وفاقی حکومت بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے۔ کم سے کم 500ارب روپے سالانہ بلوچستان کی ترقی پر خرچ ہونے چاہئیں۔ اس کے بدلے غیر ترقیاتی اخراجات میں 50فیصد کمی کی جائے تاکہ اس رقم کو بلوچستان کی ترقی پرخرچ کیا جاسکے۔