|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2016

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سی پیک کی کمیٹی نے گوادر بندر گاہ میں پانچ نئے برتھ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ فی الحال گوادر بندر گاہ کی صرف تین برتھیں ہیں جن کواستعمال کیا جارہا ہے ۔ تقریباً بارہ سال کے مطالبات کے بعد حکومت نے یہ خوش آئند فیصلہ کیا ہے کہ گوادر بندر گاہ کے لئے پانچ مزید نئی برتھیں تعمیر کی جائیں تاکہ گوادر بند رگاہ کو عالمی تجارت کے لئے فعال کیاجاسکے ۔ پانچ نئے برتھ بننے کے بعد ان کی تعداد آٹھ ہوجائے گی جو ملکی معیشت پر خوشگواراثرات چھوڑے گا۔ اس منصوبے کی تفصیلات کا ابھی تک انتظار ہے کہ بلوچستان سے متعلق تمام بارہ نئے منصوبوں کے اخراجات کو ن ادا کرے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ منصوبے حکومت پاکستان نے چین کو فراہم کیے ہیں کہ ان پر چین سرمایہ کاری کرے، معلوم نہیں کہ یہ تمام رقوم امداد ہے یاقرضہ اور اگر قرضہ ہے توان پرشرح سود کتناہوگا؟ ۔البتہ اس بات کا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ چین کی حکومت اور چین کے نجی اور سرکاری ادارے ان تمام منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں گے ورنہ ان تمام منصوبوں کو سی پی کے اجلاس میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر ان منصوبوں کے لیے فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرتی ۔ شاید اسی لیے تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ‘ سید مراد علی شاہ ‘ اور خٹک صاحب کو بھی سی پیک کے اس اجلاس میں مدعو کیا گیا ۔ بعض معاہدوں پر دستخط ان کی موجودگی میں ہوئے۔ اس سے قبل وفاقی حکومت نے سی پیک کے پانچ گزشتہ اجلاسوں کو خفیہ رکھا جس پر وفاقی اکائیوں نے اس پر سخت اعتراضات اٹھائے اورتو اور کے پی کے حکومت اس معاملے پر عدالت جانے والی تھی کہ احسن اقبال وفاقی وزیر نے معافی تلافی کرائی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ شاید اس لیے موجودہ اجلاس کو چین کے دارالحکومت میں رکھا گیا اور تین چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور کچھ افسران کو بھی مدعو کیا گیا تاکہ یہ دھبہ دور ہوجائے کہ سی پیک صرف اور صرف پنجاب کی ترقی کے لئے ہے اور چین کی زیادہ تر براہ راست سرمایہ کاری پنجاب میں ہورہی ہے ۔ عوام الناس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ چینی سرمایہ کاری ہوگی ، کیا یہ براہ راست سرمایہ کاری ہے یا یہ نرم قرضہ ہے کم سے کم یہ گرانٹ نہیں ہو سکتا ۔ چین ایک بڑا تجارتی ملک ہونے کی وجہ سے اتنی بڑی فیاضی بلوچستان اور سندھ کے عوام کے لئے نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان کے یہ دونوں صوبے چین کی سرحد سے بہت دور واقع ہیں ۔ مستقبل قریب میں اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ بلوچستان اور سندھ چین کے مارکیٹ بن جائیں ۔ یہ بات صرف اور صرف وسطی پنجاب کے لئے ہو سکتی ہے جس کی آبادی دس کروڑ کے لگ بھگ ہے سندھ اور بلوچستان کی کم آبادی چین اور چینی سرمایہ کاری کے لئے کوئی کشش نہیں رکھتی اس لیے یہ تجارتی بنیادوں پر قرضہ ہوگا یا چین کی طرف سے براہ راست سرمایہ کاری ۔ اگر یہ وفاقی حکومت کے منصوبہ ہوتے تو ان معاملات کو چین لے جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ ہم اپنے عوامی نمائندوں اور سیاسی پارٹیوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں اور اصلی حقائق بیان کریں کہ کس منصوبے پر چین کتنا خرچ کررہا ہے اور کون سے منصوبے خالصتاً ملکی ہیں جن کو پروپیگنڈے کی وجہ سے ان میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ سوالات پارلیمان اور صوبائی اسمبلی میں پوچھے جائیں تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومت عوام کے سامنے حقائق بتانے پر مجبور ہوں ۔ مثلاً خضدار اور بوستان انڈسٹریل گزشتہ چالیس سالوں سے کاغذات پر موجود ہیں خصوصاً صوبائی حکومت نے آج تک ان پر کام نہیں کیا بلکہ جو صنعتی علاقے قائم کیے گئے تھے وہ ناکام ہوگئے ۔ خضدار اور بوستان میں بنیادی ڈھانچہ ہی موجودنہیں تو وہ صنعتی زون کس طرح بن سکتے ہیں۔ اسی طرح نوکنڈی ‘ ماشکیل روڈ کا سی پیک سے کیا تعلق ، یہ اور بات ہے کہ ان سڑکوں کو تعمیر کے لئے چین کے حوالے کیا گیا ہے ۔البتہ ان منصوبوں میں گوادر بندر گاہ کی توسیع کا منصوبہ سب سے اہم ترین ہے جس سے ملکی اور صوبائی معیشت پر اچھے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے اس لیے ترجیحی بنیادوں پرگوادر بندر گاہ کے منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کیاجائے ۔