|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان کے عوام قطعاََ سی پیک منصوبہ کے خلاف نہیں ہیں البتہ جو خدشات ہیں انہیں دور کرنا انتہائی ضروری ہے ، سابق سینیٹر ثناء بلوچ نے سوشل میڈیا پر سی پیک کے حوالے سے اپنی جاری کردہ بریفنگ شائع کی، ثناء بلوچ نے اپنی بریفنگ میں سی پیک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ثناء بلوچ کے مطابق سی پیک میں چاروں صوبوں کی حصہ داری میں بلوچستان 50، سندھ30،پختو10 ،پنجاب 10شامل ہے، سی پیک کو سب سے زیادہ اہمیت کس حوالے سے دی جارہی ہے وہ ہے سمندر جس میں بلوچستان کا اہم کردار ہے ،اگر بات کی جائے پورٹ کی یعنی سمندر کی تو بلوچستان کا 70فیصد جبکہ سندھ کا 30 فیصد سمندرجوپورٹ کیلئے استعمال ہوگااس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان اس میں سب سے اہم ہیں ، اس میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کاکوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ وہاں سمندر نہیں ہے دوسری جانب اگر ہم ماحولیاتی نقصان کو دیکھیں تو سب سے زیادہ نقصان بھی بلوچستان کو پہنچیں گا جس سے 100 فیصد سمندر جبکہ پچاس فیصد ہماری زمین متاثر ہوگی کیونکہ پائپ لائن، ٹرالر اور کنٹرینر یہی سے گزرینگے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ چائنا کی سوکے قریب فشرکمپنیوں کولائسنس دینے کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے جس پر جلد عملدرآمد ہوگا ۔ اگرمنرلز کی بات کی جائے تو اس میں بلوچستان کا60،سندھ کا20،خیبرپختونخواہ کا15، پنجاب کے پانچ فیصد معدنیات کو سی پیک میں استعمال میں لایا جائے گا،کول پاورپلانٹ تیس فیصد بلوچستان ،ساٹھ فیصد سندھ ، پانچ فیصد خیبرپختونخواہ اورپانچ فیصد پنجاب کے ہیں باقی دیگر ملکوں کودرآمد کرینگے،بلوچستان 35 فیصد گیس دے رہا ہے مگر دوسری جانب یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ بلوچستان صرف 17 فیصد گیس فراہم کررہا ہے حیرت کی بات ہے کہ سوئی کا تمام کنٹرول انہی کے پاس ہے ڈسٹریبیوشن،مانیٹرنگ سمیت سب کچھ یہ خود کررہے ہیں مگر حقائق کو چھپایاجارہا ہے، سندھ 50 فیصد،خیبرپختونخواہ 9اورپنجاب کا6 فیصدگیس استعمال ہوگا ۔ سی پیک میں سب سے زیادہ حصہ داری میں بلوچستان سرفہرست ہے ، بلوچستان تیس سوپچانوے فیصد اپنا حصہ شامل کررہا ہے جبکہ دوسوچالیس سندھ، خیبرپختونخواہ 59 ،پنجاب کا چھتیس فیصد ہے،اب اس پہلو پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے کہ بلوچستان پورٹ اور زمین کے حوالے سے سب سے زیادہ حصہ دے رہا ہے مگر اسے مل کیارہا ہے پچاس ارب روپے سے بھی کم پروجیکٹ مل رہے ہیں جس کا معاشی فائدہ کچھ بھی نہیں ہے اور پنجاب کی طرف غور کیاجائے کہ اس کی حصہ داری کیا ہے اور اس کو کیا فائدہ مل رہا ہے، پنجاب میں13بلین کے پروجیکٹ ہیں صرف لاہور میں 200ارب روپے کی لاگت سے اورنج موٹروے تعمیر کیاجارہا ہے جس سے وہاں دس ہزارافراد کو ملازمتیں ملے گی اورپانچ لاکھ افراد کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر آئے گی یعنی وہاں اسی پروجیکٹ کی بنیاد پرزندگی کی رفتار تیز ہورہی ہے اور بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کوکچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ سی پیک کے ابتدائی پروجیکٹ28.6 ارب روپے شامل ہیں جس پر کام شروع ہوئے ہیں، بلوچستان کو 600ملین،سندھ کو5 بلین،خیبرپختونخواہ کو2بلین،پنجاب کو13 بلین مل رہے ہیں،بلوچستان کو سب سے زیادہ ملتا مگر ایک بار پھر بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے اور اسی رویہ کو برقرار رکھاجارہا ہے جو ماضی کے حکمران بلوچستان کو نظرانداز کرتے آئے ہیں، سی پیک کو کامیاب کرنے کیلئے بلوچستان 60 فیصد حصہ کا کردار ادا کررہا ہے مگر اسے فائدہ کچھ نہیں مل رہا دوسری جانب پنجاب صرف10 فیصد کا حصہ ڈال رہا ہے مگر اس کو 60 فیصد فائدہ مل رہا ہے، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 70 سالوں کے بعد بھی آبادی کو ترجیح دی جارہی ہے جبکہ پسماندگی اور غربت کے مارے سرزمین کے وارثوں کو نظرانداز کرکے ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیاجارہا ہے ، ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر یہی نتیجہ اخذ کیاجاتا ہے کہ بلوچستان کو سی پیک میں کچھ نہیں ملے گا، اب تک سی پیک کے حوالے سے کوئی کلیئر پالیسی سامنے نہیں آئی ہے کہ آمدنی کے پیسے کہاں اور کس طرح تقسیم کیے جائینگے،پنجاب میں تمام لوکل پروجیکٹ لگائے گئے ہیں جس کا ان کو برائے راست فائدہ پہنچے گا جبکہ بلوچستان کے تمام پروجیکٹ وفاق کے زیر انتظام ہیں جس طرح ائیرپورٹ،گوادران سب کا ٹیکس اور آمدنی وفاق کو جائے گا پھر وفاق اس کو تقسیم کرے گا، حکومت بلوچستان کوجب تک گوادر کاکنٹرول اور سیکیورٹی کو لوکلائز نہیں کیاجاتا اورکلیئرریونیواورویلتھ شیئرنگ کے ساتھ فریم ورک کو واضح نہیں کیاجاتا اس کا فائدہ بلوچستان کو نہیں ملے گا۔